عظمت قرآن کریم

بچپن ہی سے میں قرأت و تلاوت قرآن کرنے، اس عظیم آسمانی کتاب کی مشکلات حل کرنے اور اس کے حقائق و علمی رموز اور اشارے سمجھنے کا انتہائی شوق و شغف رکھتا تھا، جیسا کہ ہر حقیقی مسلمان بلکہ ہر علم دوست اور حقیقت طلب انسان کو چاہیے کہ وہ قرآن سمجھے، اس کے اسرار و رموز کے انکشافات کو خاص اہمیت دے اور اس کے نور سے روشنی حاصل کرے، کیونکہ قرآن مجید و یگانہ کتاب ہے جو انسانی سعادت اور اصلاح معاشرہ کی ضمانت دیتی ہے، قرآن ایسی کتاب ہے جو مستحکم اور وا'ح ہے اور اس کا فائدہ عمومی ہے، یہ ایسی کتاب ہے جو لغت دانوں کے لیے بہت بڑا مرجع، علماء نحو کے لیے واضح و آشکار رہنما، فقیہ اور عالم دین کے لیے بہترین مدرک اور علمی سند، ادیب کے لیے بولتا ہوا شاہد و دلیل، طالبان حکمت کےلئے واعظ اور ہر خطیب کے لیے، مرشد، علماء اخلاق کا مقصود و مطلوب، غرض ہر دانشمند کے لےے اس کے مخصوص فن (مضمون) کا مستحکم پشتیبان اور واضح دلیل و راہنما ہے۔ اجتماعی اور سیاسی علوم، آئین زندگی، انسانی معاشرہ کے جملہمسائل اور معاملات کی سرپرستی کو بہترین اور سادہ طریقے سے قرآن ہی سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ دینی علوم کے مختلف عناوین بھی قرآن ہی کی بنیاد پر قائم ہیں۔ یہ قرآن ہی ہے جس نے جہان آفرینش کے دقیق قوانین و اسرار اور خلقت کے حیرت انگیز رموز پر سے پردہ اٹھایا ہے۔ قرآن دائمی آئین کے لیے ایک زندہ اور دائمی معجزہ، اعلیٰ ترین آسمانی دین کا منظم پروگرام اور شریعت مقدسہ کا اعلیٰ ترین نظام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے بچپن ہی سے کلام مجید کی تلاوت کا انتہائی شوق تھا اور اس کے حقائق و مفاہیم کو سمجھنے اور اس کے اہداف و مقاصد سے آگاہی حاصل کرنے کی کوشش کیا کرتا تھا۔

جب بھی قرآن کے رموز و اسرار میں سے کسی رمز یا راز کو دریافت کرنے میں کامیابی حاصل ہوتی یا اس کی مشکلات میں سے کسی مشکل کو حل کرنے کی توفیق حاصل ہوتی تو تلاوت کلام اور اس کا شوق و شغف زیادہ اور دقیق تر ہو جاتا۔ تلاوت کلام اللہ کا یہی شوق باعث بنا کہ میں کتب تفسیر کی طرف رجوع کروں اور باریک بینی و ٹرف نگاہی سے تحقیق کروں۔ مگر اس منزل پر پہنچ کر ایک حیرت انگیز مسئلے سے دوچار ہونا پڑا۔

قرآن مجید اور اس کے بھیجنے والے کی عظمت کے مقابلے میں انسانی تفسیر اور اس کی فکر حقیر نظر آنے لگی۔ حق تعالیٰ کی عظمت اور بڑائی کے مقابلے میں انسان اپنے آپ کو جتنا بھی حقیر سمجھتا ہے میں اپنے آپ کو اس سے زیادہ حقیر اور ناقص محسوس کرنے لگا مجھے کلام مجید عظیم سے عظیم تر اور اس سے متعلق لکھی جانے والی کتابیں اور تفسیرین حقیر سے حقیر تر نظر آنے لگیں۔

تفسیر کی کتابوں کے مطالعے سے میں اس نتیجے اور حقیقت تک پہنچا کہ بعض حضرات نے اپنی سخت کوششوں کے نتیجے میں کچھ اسرار قرآن کو دریافت کرنے میں کامیابی حاصل کی انہیں علوم قرآن کی کے حقائق کے محتصر سے حصے تک دست رسی حاصل ہوئی ہے اور اسے ایک تکاب کی شکل میں یک جا کرکے اس کانام تفسیر رکھ دیا ہے۔ ان کے خیال میں یہ تفسیر قرآن کی تمام گہراھیوں کا احاطہ اور اس کے تمام اسرار و رموز سے پردہ اٹھانے کے لیے کافی ہے۔ حالانکہ ایسی تفیسر کو جامع تفسیر لکھنا عقلی طور پر محال ہے، یہ کیسے ممکن اور قابل تصور ہے کہ محدود اور ناقص انسان اس کامل کتاب کا احاطہ کرسکے جو ایک لامتناہی ذات کی طرف سے اتاری گئی ہے۔

تاہم علمائے کرام اور مفسرین کی زحمات اور کوششیں قابل ستائش و تحسین ہیں اور فعالیت و علمی جہاد کی وجہ سے وہ عند اللہ ماجور ہیں کیونکہ اس مقدس کتاب الہیٰ نے ان کی دلوں پر نور افشانی کی ہے اور ان کے لیے اپنی ہدایت و راہنمائی کا ایک دروازہ کھول دیا۔ کسی بھی انسان سے (خواہ اس کا مبلغ علم کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو) یہ توقع رکھنا بیجا ہے کہ وہ قرآن کے معانی اور اس کے مفاہیم کا مکمل طور پر اور ہر لحاظ سے احاطہ کرسکے، ان مفسرین کرام پر صرف یہی اعتراض ہوسکتا ہے کہ انہوں نے قرآن مجید کے صرف بعض مباحث اور علوم سے بحث کی ہے اور اس کے اکثر اور ایسے اہم حصوں سے غفلت برتی ہے جو قرآن کی عظمت اور واقعیت (حقیقت) کی نشاندہی کرسکتے تھے۔ مثال کے طور پر بعض مفسرین کرام نے صرف ادبی اعتبار سے اورکچھ نے صرف فلسفی نقطہ نگاہ سے قرآن مجید کو مورد تحقیق قرار دیا اور بعض حضرات نے جدید علوم کی روشنی میں قرآن مجید کی تفسیر کی ہے۔ اس کے باوجود سب مفسر یہی تصور کرتے ہی ںکہ قرآن مجید انہیں کے نقطہ نگاہ کے مطابق نازل ہوا ہے، جو نظریہ یہ حضرات رکھتے ہیں، بعض لوگ توف تفسیر لکھتے ہیں لیکن ان کی کتابوں میں تفسیر کی باتیں بہت کم ہی دیکھنے میں آتی ہیں جور کچھ لوگ قرآن کی تفسیر اپنے ذاتی یا ایسے افراد کے افکار کی روشنی میں کرتے ہیں، جن کو خدا نے اپنے بندوں کے لئے حجت نہیں بنایا۔ ان میں سے کوئی تفسیر بھی اشکال (اعتراض) سے خالی نہیں، کیونکہ مفسر کا یہ فرض ہے کہ دوران تفسیر وہی راستہ اختیار کرے جس کی طرف آیت کا رخ ہے اور اسی معنی کا انکشاف کرے جس کی طرف آیت کا شارہ ہے اور اسی مطلب کو واضح کرے جس پر آیت دلالت کرے۔ اپنے ذہنی اختراعات اور ذاتی مضمون (جس میں وہ مہارت رکھتا ہو) کا رنگ دیئے بغیر صرف آیات قرآن کو پیش نظر رکھے اور ان آیات کے اشاروں، راہنمائیوں اورفرمان کی روشنی میں تفسیر کرنے کی جرأت کرے۔ سادہ لفظوں میں یوں کہنا چاہیے کہ قرآنی آیات کی تفسیر اور ان کا ترجمہ آیات ہی کی راہنمائی اور رہبری کے مطابق کیا جانا چاہیے، اپنی ذاتی رائے، عقیدے، فکری کشش اور سلیقہ کے طابق تفسیر و ترجمہ نہیں ہونا چاہیے۔۔۔ صحیح مفسر وہ ہے جو قرآن کے فلسفی مباحث میں ایک حکیم و آگاہ فلاسفر اور اخلاقی مسائل میں ایک مضبوط دانشمند ہو۔ قرآن کے فقہی مسائل کو ایک فقیہ اور محقق کی نگاہ اوراس کے اجتماعی مسائل کو ایک تجربہ کار ماہر اجتماعیات کی نگاہ سے دیکھے۔ غرض قرآن کے ہر علم کی تفسیر اسی علم اور اس کے تقاضوں کے مطابق کرے۔۔۔ مفسر وہ ہے جو اس فن کو عیاں کرے جو آیت میں ہنہاں ہے اور اس ادب کو بیان کرے جو الفاظ آیت میں موجود ہے۔ وہ علم، فن اور مضمون سے متعلق وسیع معلومات رکھتا ہو، اور ہر علم و فن کی اسی علم کی روشنی میں تفسیر کرے اور آگے بڑھے اور اس موضوع پر بیسیوں جلدوں پر مشتمل کتاب مرتب کرے اور اسطرح قرآن کی تفسیر میں ایک بہت بڑا دائرۃ المعارف (انسائیکلو پیڈیا) لکھ دے۔۔۔ انہیں وجوہات کی بنا پر میں نے اپنا فرض سمجھا کہ تفسیر قرآن میں ایسی کتاب لکھوں جو حقیقی تفسیر کے نکات اور خصوصیات پر مشتمل ہو، درگاہ خداوندی میں میری دعا ہے کہ مجھے اس مقدس و بلند آرزو تک پہنچنے اور اس عظیم تمنا کو عملی جامہ پہنانے کی توفیق عنایت فرمائے۔ اس مقدس مشن میں میری مدد فرمائے ارومیری لغزشوں کو نظر انداز فرمائے۔

ہم اس تفسیر میں صرف انہی مباحث اور موضوعات سے بحث کریں گے جن کا تعلق قرآن کے معنی سے ہو اور ان مباحث سے صرف نظر کریں گے جن کا تعلق قرآن کے الفاظ، اس کے اعراب اور ادبی علوم سے ہو۔ اس لیے کہ علماء کرام اور مفسرین عظام نے اس قسم کے مباحث متعدد کتابوں میں بیان فرمائے ہیں اور اس کے لیے مزید کسی کتاب کی ضرورت نہیں رہی۔ ان کتابوںمیں شیخ طوسی کی تفسیر تبیان، طبرسی کی مجمع البیان، اور زمخشری کی تفسیر کشاف قابل ذکر ہیں۔ البتہ اگر کسی مقام پر ضرورت پڑی تو ان ادبی نکات کی طرف ضرور اشارہ کریں گے جن سے مفسرین نے غفلت برتی ہے یا ہماری زیر نظر بحث سے اس کا کوئی خاص ربط و تعلق ہے یا وہ موضوع زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔

اس مقام پر ہم قارئین کرام کی توجہ دو نکتوں کی طرف مبذول کرتے ہیں:

١۔ اس تفسیر میں ہمارا واحد سہارا اور سند درج ذیل چیزیں ہیں:

الف: آیات قرآنی کے ظواہر۔

ب: قرآن کی محکم اور واضح الدلالت آیات۔

ج: وہ روایات جن کی صحت (تواتر اور کثرت نقل کی وجہ سے مسلم ہو۔

د: وہ احادیث جو صحیح سند کے ذریعے خاندان عترت علیہم السلام سے منقول ہوں۔

ح: وہ فطری عقل جو انحراف اور غلط قسم کی رنگ آمیزیوں سے محفوظ ہو۔ کیونکہ عقل حجت باطنی ہے۔ جس طرح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کا خاندان گرامی علیہم السلام حجت اور برھان ظاہری ہیں۔

٢۔ ہم اکثر اوقات ایک آیت کی تفسیر کے لیے دوسری آیت کے مفہوم سے استفادہ کریں گے اور قرآن ہی کو اس کے معانی سمجھنے کا ذریعہ اور وسیلہ قرار دیں گے۔۔۔ قرآن کو درک کرنے اور اسے سمجھنے کے لیے قرآن سے مدد اور راہنمائی حاصل کریں گے اس روش (طریقے) اور درک کی دلیل کے طور پر اور تائید کے لیے احادیث ذکر کریں گے۔

مقدمہ میں کچھ اہم امور بیان کئے گئے ہیں جو تفسیر کی مباحث سے مربوط ہیں۔ جن سے تفسیر کے بعض تاریک پہلوؤں پر روشنی پڑسکتی ہے۔ جو تفسیر کے سربستہ رازوں کے انکشاف میں مفسر کے افکار کو روشن اور باریک بین کرسکتے ہیں۔ اصل تفسیر کو شروع کرنے سے پہلے جدا جدا ان مباحث پر تحقیق کروں گا اور اسے مقدمہ تفسیر قرآن قرار دوں گا۔ یہ مقدمہ، قرآن سے متعلق بعض علمی اور عمومی مباحث پر مشتمل ہوگا۔۔۔ مثال کے طور پر عظمت قرآن۔۔۔ اعجاز قرآن۔۔۔ قرآن کا تحریف سے محفوظ ہونا۔۔۔ قرآن میں تناقض کا نہ ہونا۔۔۔ احکام قرآن میں نسخ اور اس قسم کے دیگر مباحث جو ایک صحیح اور ٹھوس علمی تفسیر کی اساس اوربنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔۔۔ خداوند تعالیٰ سے میری یہ دعا ہے کہ اس راہ میں مجھے زیادہ سے زیادہ توفیق عنایت فرمائے اور اس عمل اور خدمت قرآن کو قبول فرمائے۔ انہ حمید مجید۔