قرآن کی روشنی میں منافقین کے ثقافتی  صفات

خودی اور اپنائیت کا اظھار

منافقین کو اپنی تخریبی اقدامات جاری رکھنے کے لئے تاکہ صاحب ایمان حضرات کی اعتقادی اور ثقافتی اعتبار سے تخریب کاری کرسکیں، انھیں ھر چیز سے اشد ضرورت مسلمانوں کے اعتماد و اعتبار کی ھے تاکہ مسلمان منافقین کو اپنوں میں سے تصور کریں اور ان کی اپنائیت میں شک سے کام نہ لیں، اس لئے کہ منافقین کے انحرافی القائات معاشرے میں اثر گذار ھوں اور ان کے منحوس مقاصد کی تکمیل ھوسکے۔

ان کی تمام سعی و کوشش یہ ھے کہ خود معاشرے میں اپنائیت کی جلوہ نمائی کرائیں، اس لئے کہ وہ جانتے ھیں اگر ان کے باطن کا افشا، اور ان کے اسرار آشکار ھوگئے تو کوئی شخص بھی منافقین کی باتوں کو قبول نھیں کریگا اور ان کی سازشیں جلد ھی ناکام ھوجائیں گی، ان کے راز افشا ھونے کی بنا پر اسلام کے خلاف ھر قسم کی تبلیغی فعالیت، نیز سیاسی سر گرمی سے ھاتھ دھو بیٹھیں گے، لھذا منافقین کا بنیادی اور ثقافتی ھدف اپنے خیر خواہ ھونے کی جلوہ نمائی اور عمومی مسلمانوں کے اعتماد کو کسب کرنا ھے اور یہ بھت عظیم خطرہ ھے کہ افراد و اشخاص، بیگانے اور اجنبی شخص کو اپنوں میں شمار کرنے لگیں، اور معاشرہ میں خواص کی نگاہ سے دیکھا جانے لگے، ثقافتی حادثہ اس وقت وجود میں آتا ھے کہ جب مسلمین منافقین کی ثقافتی روش طرز سے آشنائی نہ رکھتے ھوں اور ان کو اپنا دوست بھی تصور کریں، امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام مختلف افراد کے ظواھر پر اعتماد کرنے کے خطرات اور اشخاص کی اھمیت پر توجہ کرنے کی ضرورت کے متعلق فرماتے ھیں۔

((انما اتا کبا لحدیث اربعۃ رجال لیس لھم خامس رجل منافق مظھر للایمان متصنع بالاسلام لا یتأثم ولا یتحرج یکذب علی رسول اللہ متعمدا فلو علم الناس انہ منافق کاذب لم یقبلوا منہ ولم یصدقوا قولہ ولکنھم قالوا صاحب رسول اللہ رآہ وسمع منہ و لقف عنہ فیاخذون بقولہ) ([1])

یاد رکھو کہ حدیث کے بیان کرنے والے چار طرح کے افراد ھوتے ھیں جن کی پانچویں کوئی قسم نھیں ایک وہ منافق ھے جو ایمان کا اظھار کرتا ھے اسلام کی وضع و قطع اختیار کرتا ھے لیکن گناہ کرنے اور افترا میں پڑنے سے پرھیز نھیں کرتا ھے اور رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف قصداً جھوٹی روایتیں تیار کرتا ھے کہ اگر لوگوں کو معلوم ھوجائے کہ یہ منافق اور جھوٹا ھے تو یقیناً اس کے بیان کی تصدیق نھیں کریں گے لیکن مشکل یہ ھے کہ وہ سمجھتے ھیں کہ یہ صحابی ھیں انھوں نے حضور کو دیکھا ھے ان کے ارشاد کو سنا ھے اور ان سے حاصل کیا ھے اور اسی طرح اس کے بیان کو قبول کرلیتے ھے۔

اظھار اپنائیت کے لئے منافقین کی راہ و روش

منافقین اظھار اپنائیت کے لئے مختلف روش و طریقے سے استفادہ کرتے ھیں، چونکہ یہ مبدا و معاد پر ایمان ھی نھیں رکھتے ھیں، لھذا راہ و روش کی مشروعیت یا عدم جواز ان کے لئے کوئی معنی نھیں رکھتا، اور ان کے نزدیک قابل بحث بھی نھیں ھے ان کی منطق میں ھدف کی تحصیل و تکمیل کے لئے، ھر وسائل سے استفادہ کیا جاسکتا ھے خواہ وسائل ضد انسانی ھی کیوں نہ ھوں یھاں منافقین کی اظھار اپنائیت کے سلسلہ میں فقط پانچ طریقوں کی جانب اشارہ کیا جارھا ھے۔

۱۔ کذب و ریاکاری کے ذریعہ اظھار کرنا:

جیسا کہ پھلے اشارہ کیا گیا ھے نفاق کا اصلی جو ھر کذب اور اظھار کا ذبانہ ھے منافقین اظھار اپنائیت کے لئے وسیع پیمانہ پر حربۂ کذب سے استفادہ کرتے ھیں کبھی اجتماعی اور گروھی شکل میں پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آتے ھیں اور آپ کی رسالت کا اقرار کرتے ھیں، خداوند عالم با صراحت ان کو اس اقرار میں کاذب تعارف کراتا ھے اور پیامبر عظیم الشان سے فرماتا ھے، اگر چہ تم واقعاً فرستادہ الھی ھو لیکن وہ اس اقرار میں کاذب ھیں اور دل سے تمھاری رسالت پر ایمان نھیں رکھتے ھیں۔

(اذا جاءک المنافقون قالوا نشھد انک لرسول اللہ واللہ یعلم انک لرسولہ واللہ یشھد ان المنافقون لکاذبون) ([2])

پیامبر! یہ منافقین آپ کے پاس آتے ھیں تو کھتے ھیں کہ ھم گواھی دیتے ھیں کہ آپ اللہ کے رسول ھیں اور اللہ بھی جانتا ھے کہ آپ اس کے رسول ھیں لیکن اللہ گواھی دیتا ھے کہ یہ منافقین اپنے دعوے میں جھوٹے ھیں۔

جس وقت مومنین، منافقین کو ایجاد فساد و تباھی سے منع کرتے ھیں، خود کو تاکید کے ساتھ مصلح و آباد گر کھتے ھیں خداوند عالم ان کی گفتار کی تکذیب کرتے ھوئے ان کے مفسد ھونے کا اعلان کررھا ھے۔

(واذا قیل لھم لا تفسدوا فی الارض قالوا انما نحن مصلحون الا انھم ھم المفسدون ولکن لا یشعرون) ([3])

جب ان سے کھا جاتا ھے کہ زمین میں فساد نہ برپا کرو تو کھتے ھیں کہ ھم تو صرف اصلاح کرنے والے ھیں حالانکہ یہ سب مفسد ھیں اور اپنے فساد کو سمجھتے بھی نھیں ھیں۔

منافقین اپنی کذب بیانی سے، پہلے کھی گئی بات کو آسانی سے انکار بھی کردیتے ھیں، تاریخی شواھد کے مطابق کسی مودر میں جب یہ کوئی بات کرتے تھے اور اس کی خبر رسول اسلا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ھوجاتی تھی تو یہ سرے ھی سے اس کا انکار اور شدت سے اس خبر کی تکذیب کردیتے تھے۔

نقل کیا گیا ھے کہ"جلاس" نام کا منافق جنگ تبوک کے زمانہ میں پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعض خطبے کو سننے کے بعد اس کا انکار کرتے ھوئے پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکذیب بھی کی، حضور کی مدینہ واپسی کے بعد عامر ابن قیاس نے پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں جلاس کی حرکات کو بیان کیا، جب جلاس حضور کے خدمت میں پھونچا تو عامر بن قیس کی گزارش کو انکار کر بیٹھا، آپ نے دونوں کو حکم دیا کہ مسجد نبوی میں منبر کے نزدیک قسم کھائیں کہ جھوٹ نھیں بول رھے ھیں دونوں نے قسم کھائی، عامر نے قسم میں اضافہ کیا خدایا! اپنے پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آیت نازل کرکے جو صادق ھے اس کا تعارف کرادے، حضور اور مومنین نے آمین کھی، جبرئیل نازل ھوئے اور اس آیت کو پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔

(یحلفون باللہ ما قالوا ولقد قالوا کلمۃ الکفر وکفروا بعد اسلامھم) ([4])

یہ اپنی باتوں پر اللہ کی قسم کھاتے ھیں کہ ایسا نھیں کھا حالانکہ انھوں نے کلمہ کفر کھا اور اپنے اسلام کے بعد کافر ھوگئے ھیں۔

یہ اور مذکورہ آیات سے استفادہ ھوتا ھے کہ کذب اور تکذیب، منافقین کا ایک طرۂ امتیاز ھے تاکہ مومنین کی صفوف میں نفوذ کرکے اپنائیت کا اظھار کرسکیں۔

منافقین پیامبر عظیم الشان(ص) کے دور میں تصور کرتے تھے کہ کذب و تکذیب کے ذریعہ آپ کو فریب دے سکتے ھیں تاکہ اپنے باطن کو مخفی کرسکیں خداوند عالم منافقین کی اس روش کو افشا کرتے ھوئے تاکید کررھا ھے کہ ایسا نھیں ھے کہ پیامبر گرامی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمھارے احوال و اوضاع سے بے خبر ھیں یا خوش خیالی کی بنا پر تمھاری باتوں پر اطمینان کرلیتے ھیں۔

نقل کیا جاتا ھے کہ جماعت نفاق کے افراد آپس میں بیٹھے ھوئے پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو ناسزا الفاظ سے یاد کررھے تھے، ان میں سے ایک نے کھا: ایسا نہ کرو، ڈرتا ھوں کہ یہ بات (حضرت) محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کانوں تک پہنچ جائے اور وہ ھم کو برا بھلا کھیں اور افراد کو ھمارے خلاف ورغلائیں، ان میں سے ایک نے کھا: کوئی اھم بات نھیں، جو ھمارا دل چاھے گا کھیں گے، اگر یہ بات ان کے کانوں تک پہنچ بھی جائے، تو ان کے پاس جاکر انکار کردیں گے چونکہ (حضرت) محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوش خیال و منھ دیکھے ھیں، کوئی جو کچھ بھی کھتا ھے قبول کرلیتے ھیں اس موقع پر سورہ توبہ کی ذیل آیت نازل ھوئی اور ان کے اس غلط تصور و فکر کا سختی سے جواب دیا۔

(منھم الذین یوذون النبی ویقولون ھو اذن) ([5])

ان (منافقین)میں سے جو پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت دیتے ھیں اور کھتے ھیں وہ تو صرف کان (سادہ لوح و خوش باور) ھیں۔

۲۔ باطل قسمیں یاد کرنا:

دوسری وہ روش جس کو استعمال کرتے ھوئے منافقین مومنین کے حلقہ میں نفوذ کرتے ھیں، باطل قسمیں کھانا ھے، وہ ھمیشہ شدید قسموں کے ذریعہ سعی کرتے ھیں تاکہ اپنے باطن کو افشا ھونے سے بچا سکیں اور اسی کے سایہ میں تخریبی حرکتیں انجام دیتے ھیں۔

(اتخذوا ایمانھم جنۃً فصدوا عن سبیل اللہ) ([6])

انھوں نے اپنی قسموں کو سپر بنا لیا ھے اور لوگوں کو راہ خدا سے روک رھے ھیں۔ منافقین باطل اور جھوٹی قسموں کے ذریعہ کوشش کرتے ھیں کہ خود کو مومنین کا خیر خواہ ثابت کریں، اور صاحب ایمان کے حلقہ میں اپنا ایک مقام بنالیں۔

(ویحلفون باللہ انھم لمنکم وما ھم منکم و لکنھم قوم یفرقون) ([7])

اور یہ اللہ کی قسم کھاتے ھیں اس بات پر کہ یہ تمھیں میں سے ھیں حالانکہ یہ تم میں سے نھیں ھیں یہ بزدل لوگ ھیں۔

منافقین چونکہ واقعی ایمان کے حامل نھیں، رضائے الھی کا حصول ان کے لئے اھمیت نھیں رکھتا ھے اور معاشرے میں اپنی ساکھ اور اعتبار بھی بنائے رکھنا چاھتے ھیں اور معاشرہ کے افراد کی توجہ کی حصول کے لئے زیادہ اھتمام بھی کرتے ھیں لھذا مختلف میدان میں جھوٹی قسمیں کھاکر مومنین حضرات کی رضایت و خشنودی کو حاصل کرتے ھیں۔

خدا قرآن میں تصریح کررھا ھے کہ منافقین کا بنیادی مقصد مومنین کی رضایت کو حاصل کرنا ھے حالانکہ رضایت الھی کا حصول اھمیت کا حامل ھے جب تک خدا راضی نہ ھو بندگان خدا کی رضایت منافقین کے لئے سودمند ھو ھی نھیں سکتی ھے شاید مومنین کی رضایت سے سوء استفادہ کرتے ھوئے مزید کچھ دن تخریبی کاروائی انجام دے سکیں۔

(یحلفون باللہ لکم لیرضوکم واللہ ورسولہ احق ان یرضوہ ان کانوا مومنین)[8]

یہ لوگ تم لوگوں کو راضی کرنے کے لئے خدا کی قسم کھاتے ھیں حالانکہ خدا و رسول اس بات کے زیادہ حق دار تھے اگر یہ صاحبان ایمان تھے تو واقعاً انھیں اپنے اعمال و کردار سے راضی کرتے۔

(یحلفون لکم لترضوا عنھم فان ترضوا عنھم فان اللہ لا یرضی عن القوم الفاسقین) [9]

یہ تمھارے سامنے قسم کھاتے ھیں کہ تم ان سے راضی ھوجاؤ اگر تم راضی بھی ھوجاؤ تو بھی خدا فاسق قوم سے راضی ھونے والا نھیں۔

۳۔ غلط اقدامات کی توجیہ کرنا:

منافقین صاحبان ایمان کی تحصیل رضایت اور حسن نیت کی اثبات کے لئے اپنے غلط اقدامات و حرکات کی توجیہ کرتے ھیں کہ اپنائیت کا اظھار کرتے ھوئے فائدہ حاصل کرسکیں منافقین کی نفسیاتی خصوصیت میں یہ نکتہ مورد بحث قرار دیا گیا ھے اور تصریح کیا گیا ھے کہ منافقین تاویل و توجیہ کے ھتکنڈے کو تمام ھی موارد میں استعمال کرتے ھیں۔

منافقین عمومی افکار اور اعتماد کو ھاتھ سے جانے دینا نھیں چاھتے لھذا اظھار اپنائیت کرتے ھوئے اپنے غلط اقدامات و حرکات کی توجیہ کرتے ھیں اور اپنے باطل مقاصد کو حق کے لباس اور قالب میں پیش کرتے ھیں۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام اھل نفاق کی توصیف کرتے ھوئے فرماتے ھیں:

((یقولون فیشبھون ویصفون فیموھون))[10]

جب بات کرتے ھیں تو مشتبہ انداز میں اور جب تعریف کرتے ھیں تو باطل کو حق کا رنگ دے کر، کرتے ھیں۔

قرآن مجید نے منافقین کے مختلف عذر اور غلط اقدامات کا ذکر کیا ھے اور ان کی تکذیب بھی کی ھے، بطور مثال جنگ تبوک میں اپنے عدم حضور کی توجیہ، ناتوانی و عدم قدرت کی شکل میں پیش کرنا چاھتے تھے کہ خداوند عالم ان سے قبل ان کی اس توجیہ کی تکذیب کرتے ھوئے فرماتا ھے:

(لو کان عرضاً قریباً و سفرا قاصدا لا تبعونک ولکن بعدت علیھم الشقّہ وسیحلفون باللہ لو استطعنا لخرجنا معکم یھلکون انفسھم واللہ یعلم انھم لکاذبون)[11]

پیامبر! اگر کوئی فوری فائدہ یا آسان سفر ھوتا تو تمھارا اتباع کرتے لیکن ان کے لئے دور کا سفر مشکل بن گیا ھے اور عنقریب یہ خدا کی قسمیں کھائیں گے اس بات پر کہ اگر ممکن ھوتا تو ھم ضرور آپ کے ساتھ چل پڑتے، یہ اپنے نفس کو ھلاک کررھے ھیں اور خدا خوب جانتا ھے کہ یہ جھوٹے ھیں۔

منافقین کے غلط اقدام کی توجیہ کا ایک اور موقع یہ ھے کہ، تقریباً منافقین میں سے ایک سو اسّی افراد نے غزوہ تبوک میں شرکت نھیں کی، جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مسلمان وھاں سے واپس آئے تو منافقین مختلف توجیہ کرنے لگے۔

ذیل کی آیت منافقین کی اس غلط حرکات کی سرزنش کے لئے نازل ھوئی ھے خداوند عالم بطور واضح بیان کررھا ھے کہ ان کے جھوٹے عذر خدا کے لئے پوشیدہ نھیں ھیں ان کے حالات سے مومنین کو باخبر کرکے منافقین کے اسرار سے پردہ اٹھا رھا ھے۔

(یعتذرون الیکم اذا رجعتم الیھم قل لا تعتذروا لن نؤمن لکم قد نبّأنا اللہ من اخبارکم و سیری اللہ عملکم ورسولہ ثم تردون الی عالم الغیب و الشھادۃ فینبئکم بما کنتم تعملون)[12]

یہ تخلف کرنے والے منافقین تم لوگوں کی واپسی پر طرح طرح کے عذر بیان کریں گے تو آپ کہہ دیجئے کہ تم لوگ عذر نہ بیان کرو ھم تصدیق کرنے والے نھیں ھیں اللہ نے ھمیں تمھارے حالات بتادیئے ھیں وہ یقیناً تمھارے اعمال کو دیکھ رھا ھے اور رسول بھی دیکھ رھا ھے اس کے بعد تم حاضر و غائب کے عالم (خدا) کی بارگاہ میں واپس کئے جاؤ گے اور وہ تمھیں تمھارے حال سے باخبر کرے گا۔

۴۔ ظاھر سازی کرنا:

ظواھر دینی کی شدید رعایت، خوش نما و اشخاص پسند گفتگو، اصلاح طلب نظریات و افکار کا اظھار، منافقین کے حربہ ھیں تاکہ طرف کے مقابل کو اپنا ھمنوا بناکر خودی ھونے کا القاء کرسکیں۔

امیر المومنین حضرت امام علی علیہ السلام کے ھم عصر بعض منافقین ظاھر میں عبّاد و زہاّد دھر تھے نماز شب، قرآن کی تلاوت، ان سے طولانی ترین سجدے ترک نھیں ھوتے تھے، ان کی ظاھر سازی سے اکثر مومنین فریب کے شکار ھوجاتے تھے، بھت کم ھی تھے جو ان کے دین و ایمان میں شک رکھتے ھوں۔

منافقین کی ظاھر سازی کچھ اس نوعیت کی تھی کہ بقول قرآن، خود پیامبر عظیم الشان(ص) کے لئے بھی باعث حیرت و تعجب خیز تھی۔

(واذا رأیتھم تعجبک اجسامھم ان یقولوا تسمع لقولھم)[13]

اور جب آپ انھیں دیکھیں گے تو ان کے جسم بھت اچھے لگیں گے اور بات کریں گے تو اس طرح کہ آپ سننے لگیں گے۔

منافقین کی ظواھر سازی، رفتار و کردار سے اختصاص نھیں رکھتی بلکہ ان کی گفتار بھی فریب و جاذبیت سے لبریز ھے۔

(ومن الناس من یعجبک قولہ فی الحیوة الدنیا و یشھد اللہ علی ما فی قلبہ وھو الدّ الخصام)[14]

انسانوں میں ایسے لوگ بھی ھیں جن کی باتیں زندگانی دنیا میں بھلی لگتی ھیں اور وہ اپنے دل کی باتوں پر خدا کو گواہ بتاتے ھیں حالانکہ وہ بدترین دشمن ھیں۔

۵۔ جھوٹے عھد و پیمان کرنا:

خودی ظاھر کرنے کے لئے منافقین کا ایک اور وطیرہ وعدہ اور اس کی خلاف ورزی ھے بسا اوقات منافقین سے عادتاً ایسی خطائیں سرزد ھوتی تھیں کہ جس کی کوئی توجیہ و تاویل ممکن نھیں تھی یا مومنین کے لئے قابل قبول نھیں ھوتی تھی ایسے مقام پر وہ توبہ کو وسیلہ بناتے تھے اور عھد کرتے تھے اب ایسی خطائیں نھیں کریں گے اور صحیح راستہ پر مستحکم و ثابت قدم رھیں گے لیکن چونکہ دین اور دین کے اعتبارات کے لئے منافقین کے قلب میں کوئی جگہ تھی ھی نھیں جو اپنے عھد و پیمان پر باقی رھتے، تخلف وعدہ ایسے ھی تھا جیسے ان کے لئے کذب وغیرہ…… جنگ احزاب میں منافقین کی وعدہ خلافی کی بنا پر ذیل کی آیت کا نزول ھوا:

(ولقد کانوا عاھدوا اللہ من قبل لا یولون الأدبار وکان عھد اللہ مسئولا)[15]

اور ان لوگوں نے اللہ سے یقینی عھد کیا تھا کہ ھرگز پشت نھیں دکھائیں گے، اور اللہ کے عھد کے بارے میں بھر حال سوال کیا جائے گا۔

خداوند عالم "ثعلبہ بن حاطب" کی عھد گزاری نیز پیمان شکنی کے واقعہ کو یاد دھانی کے طور پر پیش کررھا ھے، ثعلبہ بن حاطب ایک فقیر مسلمان تھا اس نے پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دعا کرنے کی خواھش کی تاکہ وہ صاحب ثروت ھوجائے حضرت نے فرمایا: وہ تھوڑا مال جس کا تم شکر ادا کرسکتے ھو اس زیادہ اموال سے بھتر ھے جس کی شکر گزاری نھیں کرسکتے ھو، ثعلبہ نے کھا: اگر خدا عطا کرے تو اس کے تمام واجب حقوق کو ادا کرتا رھوں گا۔

پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا سے اموال میں اضافہ ھونے لگا، یھاں تک کہ اس کے لئے مدینہ میں قیام، نماز جماعت نیز جمعہ میں شرکت کرنا مشکل ھوگیا اطراف مدینہ میں منتقل ھوگیا، جب زکوٰۃ لینے والے گئے تو یہ کہہ کر واپس کردیا کہ مسلمان اس لئے ھوئے ھیں تاکہ جزیہ و خراج نہ دینا پڑے، اگر چہ بعد میں ثعلبہ پشیمان تو ھوا لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی تنبیہ اور دوسروں کی عبرت کے لئے زکوٰۃ لینے سے انکار کردیا، ذیل کی آیت اسی واقعہ کو بیان کررھی ھے۔

(ومنھم من عاھد اللہ لئن آتانا من فضلہ لنصدقن و لنکونن من الصالحین فلما آتیھم من فضلہ بخلوا بہ وتولوا وھم معرضون فاعقبھم نفاقاً فی قلوبھم الی یوم یلقونہ)[16]

ان میں سے وہ بھی ھیں جنھوں نے خدا سے عھد کیا اگر وہ اپنے فضل و کرم سے عطا کرے گا، تو اس کی راہ میں صدقہ دیں گے اور نیک بندوں میں شامل ھوجائیں گے، اس کے بعد جب خدا نے اپنے فضل سے عطا کردیا تو بخل سے کام لیا، اور کنارہ کش ھوکر پلٹ گئے تو ان کے بکل نے ان کے دلوں میں نفاق راسخ کردیا، اس دن تک کے لئے جب یہ خدا سے ملاقات کریں گے اس لئے کہ انھوں نے خدا سے کئے ھوئے وعدہ کی مخالفت کی ھے اور جھوٹ بولتے ھیں۔

پیمان گزاری و پیمان شکنی، وعدہ اور وعدہ کی خلاف ورزی، آئندہ صالح ھونے کا پیمان اور اس سے روگردانی وغیرہ……، یہ وہ طریقے ھیں جس سے منافقین استفادہ کرتے ھوئے مومنین کے حلقہ و دینی معاشرے میں خود کو مخفی؛ کئے رھتے ھیں اور عوام فریبی کے لئے زمین ھموار کرتے ھیں۔

منافقین کی ثقافتی خصائص

دینی یقینیات و مسلّمات کی تضعیف

منافقین کی ثقافتی رفتار و کردار کی دوسری خصوصیت دینی و مذھبی یقینیات و مسلّمات کی تضعیف ھے یقیناً جب تک انسان کا عقیدہ تحریف، تزلزل، ضعف سے دوچار نہ ھوا ھو۔ کوئی بھی طاقت اس کے عقیدہ کے خلاف زور آزمائی نھیں کرسکتی قدرت کا اقتدار، حکومت کی حاکمیت اجسام و ابدان پر تو ھوسکتی ھے دل میں نفوذ و قلوب پر مسلط نھیں ھوسکتی سر انجام انسان کی رسائی اس شی تک ھو ھی جا تی ھے جسے دل اور قلب پسند کرتا ھے اسلام کا اھم ترین اثر مسلمانوں پر، بلکہ تمام ھی ادیان کا اپنے پیروکاروں پر یہ رھا ھے کہ فرضی و خرافاتی رسم و رواج کو ختم کرتے ھوئے منطقی و محکم اعتقاد کی بنیاد ڈالیں، پہلے تو اسلام نے انسانوں کے اندرونی تحول و انقلاب کے لئے کام کیا ھے پھر اسلامی حکومت کے استقرار کی کوشش کی ھے تاکہ ایسا سماج و معاشرہ وجود میں آئے جو اسلام کے نظریہ کے مطابق اور مورد تایید ھو۔

پیامبر عظیم الشان(ص) پہلے مکہ میں تیرہ سال تک انسان سازی اور ان کے اخلاقی، فکری، اعتقادی ستون کو محکم مضبوط کرنے میں مصروف رھے اس کے بعد مدینہ میں اسلام کی سیاسی نظریات کی تابع ایک حکومت تشکیل دی منافقین جانتے تھے کہ جب تک مسلمان پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انسان ساز تعلیمات پر گامزن اور خالص اسلامی عقیدہ پر استوار و ثابت قدم رھیں گے، ان پر نہ تو حکومت کی جاسکتی ھے اور نہ ھی وہ تسلیم ھوسکتے ھیں، لھذا ان کی طرف سے ھمیشہ یہ کوشش رھی ھے کہ مومنین عقائد، دینی و مذھبی تعلمیات کے حوالہ سے ھمیشہ شک و شبہ میں مبتلا رھیں جیسا کہ آج بھی اغیار کے ثقافتی یلغار و حملہ کا اھم ترین ھدف یھی ھے۔

منافقین کے اھداف یہ ھیں کہ اھل اسلام سے روح اسلام اور ایمان کو سلب کرلیں، منافقین کی تمام تر سعی، دین کے راسخ عقائد اس کے اھداف و نتائج، مذھب کی حقانیت و مسلمات سے مسلمانوں کو دور کردینا ھے تاکہ شاید اس کے ذریعہ اسلامی حکومت کی عنان اپنے ھاتھ میں لے سکیں اور مسلمانوں پر تسلط و قبضہ کرسکیں لھذا منافقین کا اپنے باطل مقاصد کے تکمیل کے لئے بھترین طریقۂ  کار یہ ھوتا ھے کہ لوگوں کے دلوں میں طرح طرح کے شکوک پیدا کریں، اور انواع و اقسام کے شبھات کے ذریعہ مسلمانوں کو دینی مسلّمات کے سلسلہ میں وادی تردید میں ڈال دینے کی کوشش کرتے ھیں، تاریخی شواھد اور وہ آیات جو منافقین کی اس روش کو اجاگر کرتی ھیں، بیان کرنے سے قبل، ایک مختصر وضاحت سوال اور ایجاد شبہ کے سلسلہ میں عرض کرنا لازم ھے، اس میں کوئی شک نھیں کہ سوال اور جستجو کی فکر ایک مستحسن اور مثبت پہلو ھے، تمام علوم و معارف انھیں سوالات کے رھین منت ھیں جو بشر کے لئے پیش آئے ھیں اور جس کے نتیجہ میں اس نے جوابات فراھم کئے ھیں، اگر انسان کے اندر جستجو و تلاش کا جذبہ نہ ھوتا جو اس کی فطرت کا تقاضا ھے نیز ان سوالات کا حل تلاش کرنے کی فکر دامن گیر نہ ھوتی تو یقیناً موجودہ علوم و دانش کی یہ ترقی کسی صورت سے حاصل نہ ھوتی۔

ان سوالات کے حل کے لئے جو انسان کے لئے پیش آتے ھیں دین اسلام میں فراوان تاکید کی گئی ھے، یہ کھا جاسکتا ھے جس قدر علم و تحصیل کی تشویق و ترغیب کی گئی ھے اسی طرح سوالات اور اس کے حل پر بھی زور دیا گیا ھے، قرآن مجید صریح حکم دے رھا ھے اگر کسی چیز کو نھیں جانتے ھو تو اس علم کے علماء اور دانشمندوں سے سوال کرو۔

(فاسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون)[17]

اگر نھیں جانتے ھو تو اھل ذکر (علماء) سے سوال کرو۔

دوسرا وہ مطلب جو اسلام میں جواب و سوال کی اھمیت کو ظاھر کرتا ھے وہ جوابات ھیں جو خداوند عالم نے قرآن میں بیان کئے ھیں یہ سوالات پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کئے جاتے تھے خدا نے قرآن میں "یسئلونک" سے بات آغاز کرتے ھوئے ان کے جوابات دئے ھیں[18]

پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جب روح، ھلال، انفال شراب و قمار کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ سوال اور فکر سوال کی تشویق و تمجید کرتے ھوئے فرماتے ھیں:

((العلم خزائن و مفاتیحھا السوال فاسئلوا یرحمکم اللہ فانہ یوجر فیہ اربعۃ السائل والعالم و المستمع والمحب لھم))[19]

علم خزانہ ھے اور اس کی کنجیاں سوال کرنا ھے، سوال کرو، (جس چیز کو نھیں جانتے ھو) خداوند متعال تم کو اپنی خاص رحمت سے نوازے گا ھر سوال میں چار فرد کو فائدہ نفع حاصل ھوتا ھے سوال کرنے والے، جواب دینے والے، سننے والے اور اس فرد کو جو ان کو دوست رکھتا ھے۔

ائمہ حضرات کے بھت سارے دلائل، بحث و مباحثات نیز مختلف افراد کے سوالات کا جواب دینا، حتی دشمنوں اور کافرین کے مسائل کا حل پیش کرنا اس بات کی دلیل ھے کہ سوال ایک امر پسندیدہ و مطلوب شی ھے، ائمہ حضرات کی سیرت میں اس امر کا اھتمام کافی حد تک مشھور ھے[20]

ظاھر ھے کہ وہ سوالات جو درک و فھم اور استفادہ کے لئے کیا جائے، وہ مفید ھے اور فھم و کمال کو بلندی عطا کرتا ھے، لیکن وہ سوالات جو دوسروں کی اذیت، آزمایش یا ایسے علم کے حصول کے لئے ھو جو انسان کے لئے فائدہ مند نھیں ھے، صرف یھی نھیں کہ ایسے سوالات بے قدر و قیمت ھیں بلکہ ممنوع قرار دئے گئے ھیں۔

امیر المومنین حضرت امام علی علیہ السلام نے ایک پیچیدہ اور بی فائدہ سوال کے جواب میں فرمایا:

((سل تفقھا ولا تسأل تعنتا))[21]

سمجھنے کے لئے دریافت کرو الجھنے کے لئے نھیں۔

قرآن مجید میں بھی پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کئے گئے بعض سوالوں کے جواب کے لحن و طرز سے اندازہ ھوتا ھے کہ ایسے سوالات نھیں کرنا چاھئے جن کے جوابات ثمر بخش نھیں ھیں۔

بعض مسلمانوں نے ھلال (ماہ) کے سلسلہ میں سوالات کئے کہ ماہ کیا ھے، وہ کیوں تدریجاً کامل ھوتا ھے، پھر کیوں پہلی حالت پر پلٹ آتا ھے[22]

اللہ اس سوال کے جواب میں پیامبر عظیم الشان کو حکم دیتا ھے کہ ھلال کے تغییرات کے آثار و فوائد کو بیان کریں، ھلال کے متعلق اس جواب کا مفھوم یہ ھے کہ وہ چیز جو سوال کرنے و جاننے کے قابل ھے وہ ھلال کی تغییرات کی بنا پر اس کے آثار و فوائد ھیں نہ یہ کہ، کیوں ماہ تغییر کرتا ھے اور اس کی علت کیا ھے (علت شناسی زیادہ اھمیت کی حامل نھیں)۔

سوال اور شبہ کا اساسی و بنیادی فرق یہ ھے کہ شبہ القا کرنے والے کا ھدف، جواب کا حاصل کرنا نھیں ھے بلکہ شبہ کا موجد اپنے باطل مطلب کو حق کے لباس میں ان افراد کے سامنے پیش کرتا ھے، جو حق و باطل میں تشخیص دینے کی صلاحیت نھیں رکھتے ھیں امیر المونین حضرت علی علیہ السلام شبہ کی اسم گزاری کے سلسلہ میں فرماتے ھیں:

((وانما سمیت الشبھۃ شبھۃ لانھا تشبہ الحق))[23]

شبہ کو اس لئے شبہ کا نام دیا گیا کہ حق سے شباھت رکھتا ھے۔

اگر شبہ ایجاد کرنے والے کو علم ھوجائے کہ کسی مقام پر ھمارا مغالطہ کشف ھوجائے گا اور اس کا باطن ھونا آشکار ھوجائے گا تو ایسی صورت میں وہ اس مقام یا فرد کے پاس اصلاً شبہ کو طرح و پیش ھی نھیں کرتا بلکہ وہاں پیش کرنے سے گریز کرتے ھیں سعی و کوشش یہ ھوتی ھے کہ شبہ کے احتمالی جواب کو بھی مخدوش کرکے پیش کرے۔

ایسے افراد کے اھداف بعض اشخاص کو اپنے میں جذب اور ان کے مبانی و اصول میں تزلزل پیدا کرنا ھوتا ھے، تاکہ حق کو دور و جدا کرسکیں، شبہ کرنے والے حضرات اپنے باطل کو حق میں اس طرح آمیزش کردیتے ھیں کہ وہ افراد جو تفریق و تمیز کی صلاحیت نھیں رکھتے ھیں وہ فریب کا شکار ھوجائیں۔

شبھات ھمیشہ حق کے لباس میں پیش کئے جاتے ھیں اور آسانی سے سادہ لوح افراد مجذوب ھوجاتے ھیں، شبہ خالص باطل نھیں ھے اس لئے کہ باطل محض اور خالص آسانی سے ظاھر ھوجاتا ھے۔

حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام فتنہ کا سر چشمہ حق و باطل کی آمیزش کو بیان کرتے ھیں، آپ مزید فرماتے ھیں کہ اگر حق و باطل ایک دوسرے سے جدا کردئے جائیں تو راستہ کی تشخیص بھت ھی آسان اور سھل ھوجاتی ھے۔

((انما بدء وقوع الفتن اھواء تتبع و احکام تبتدع یحلاف فیھا کتاب اللہ ویتولی علیھا رجال رجالا علی غیر دین اللہ فلو ان الباطل خلص من مزاج الحق لم یخف علی المرتادین ولو ان الحق خلص من لبس الباطل انقطعت عنہ السن المعاندین ولکن یوخذ من ھذا ضغث و من ھذا ضغث فیمز جان))[24]

فتنہ کی ابتدا ان خواھشات سے ھوتی ھے جن کا اتباع کیا جاتا ھے اور ان جدید ترین احکام سے ھوتی ھے جو گڑھ لئے جاتے ھیں اور سراسر کتاب خدا کے خلاف ھوتے ھیں اس میں کچھ لوگ دوسرے لوگوں کے ساتھ ھوجاتے ھیں اور دین خدا سے الگ ھوجاتے ھیں کہ اگر باطل حق کی آمیزش سے الگ رھتا تو حق کے طلبگاروں پر مخفی نھیں رہ سکتا تھا اور اگر حق باطل کی ملاوٹ سے الگ رھتا تو دشمنوں کی زبانیں کھل نھیں سکتی تھیں، لیکن ایک حصہ اس میں سے لیا جاتا ھے اور ایک اس میں سے، اور پھر دونوں کو ملا دیا جاتا ھے۔

تحقیقی اور تخصصی مسائل کو علمی ظاھر کرتے ھوئے، غیر علمی حلقے و ماحول میں پیش کرنا ایجاد کرنے کا روشن ترین مصداق ھے۔

شبہ کا القا

دینی و اعتقادی مسلّمات کو ضعیف و کمزور کرنے کے لئے منافقین کی اھم ترین روش، القا شبہ ھے جس کے ذریعہ دین و ایمان کی روح و فکر کو خدشہ دار کردیتے ھیں۔

منافقین سخت اور حساس مواقع پر خصوصاً جنگ و معرکہ کے ایام میں شبہ اندازی کرکے مومنین کی مشکلات میں اضافہ اور مجاھدین کی فکر و حوصلہ کو تباہ اور برباد کر دیتے ھیں تاکہ میدان جنگ و نبرد کے حساس مواقع پر شرکت کرنے سے روک سکیں۔

اس مقام پر منافقین کی طرف سے پیش کئے گئے دو شبہ قرآن مجید کے حوالہ سے پیش کئے جارھے ھیں۔

۱۔ دین کے لئے فریب کی نسبت دینا

منافقین جنگ بدر کے موقع پر خداوند عالم کی نصرت و مدد اور مسلمین کی کامیابی و فتح یابی کے وعدے کی تکذیب کرتے ھوئے، ان کے وعدے کو فریب و خوش خیالی قرار دے رھے تھے، قصد یہ تھا کہ ایجاد اضطراب کے ذریعہ وعدہ الھی کے سلسلہ میں مسلمانوں کے اعتقاد و ایمان میں ضعف و تزلزل پیدا کردیں، تاکہ وہ میدان جنگ میں حاضر نہ ھوسکیں۔

خداوند عالم اس مسئلہ کی یاد دھانی کرتے ھوئے مسلمانوں کے لئے تصریح کرتا ھے کہ خدا کا وعدہ یقینی ھے اگر توکل و اعتماد رکھو گے تو کامیاب و کامران ھوجاؤ گے۔

(واذ یقول المنافقون والذین فی قلوبھم مرض غرّ ھولاء دینھم ومن یتوکل علی اللہ فان اللہ عزیز حکیم)[25]

جب منافقین اور جن کے دل میں کھوٹ تھا کہہ رھے تھے کہ ان لوگوں (مسلمان) کو ان کے دین نے دھوکہ دیا ھے حالانکہ جو شخص اللہ پر اعتماد کرتا ھے تو خدا ھر شی پر غالب آنے والا اور بڑی حکمت والا ھے۔

منافقین نے اسی سازش کو جنگ احزاب (خندق) میں بھی استعمال کیا۔

(واذ یقول المنافقون والذین فی قلوبھم مرض ما وعدنا اللہ ورسولہ الا غرورا)[26]

اور جب منافقین اور جن کے دلوں میں مرض تھا یہ کہہ رھے تھے کہ خدا و رسول نے ھم سے صرف دھوکہ دینے والا وعدہ کیا ھے۔

آیت فوق کی شان نزول یہ ھے کہ مسلمان خندق کھودتے وقت ایک بڑے پتھر سے ٹکرائے، سعی فراوان کے بعد بھی پتھر کو نہ توڑ سکے، رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مدد کے لئے درخواست کی، آپ نے الھی طاقت کا مظاھرہ کرتے ھوئے تین وار اور ضرب سے پتھر کو توڑ ڈالا، اور آپ نے فرمایا: یھاں سے حیرہ، مدائن، کسریٰ و روم کے قصر و محل میرے لئے واضح و آشکار ھیں، فرشتۂ وحی نے مجھے خبر دی ھے کہ میری امت ان پر کامیاب اور فتحیاب ھوگی نیز ان کے تمام قصر و محل زیر تصرف ھوں گے پھر آپ نے فرمایا: خوش خبری اور مبارک ھو تم مسلمانوں پر اور اس خدا کا شکر ھے کہ اس محاصرہ و مشکلات کے بعد فتح و ظفر ھے۔

اس موقع پر ایک منافق نے بعض مسلمانوں کو مخاطب کرتے ھوئے کھا: تم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات پر تعجب نھیں کرتے ھو، کس طریقہ سے تم کو بے بنیاد وعدوں کے ذریعہ خوش کرتے ھیں اور کھتے ھیں کہ یھاں سے روم و حیرہ و مدائن کے قصر کو دیکھ رھا ھوں اور جلد ھی فتح نصیب ھوگی، یہ اس حال میں تم کو وعدہ دے رھے ھیں کہ تم دشمن سے مقابلہ کرنے میں خوف و ھراس کے شکار ھو [27]

۲۔ حق پر نہ ھونے کا شبہ ایجاد کرنا

دوسرا وہ القاء شبہ جسے ھمیشہ منافقین خصوصاً میدان جنگ اور معرکہ میں ایجاد کرتے تھے حق پر نہ ھونے کا شبہ تھا، جب جنگوں میں مسلمان خسارہ اور نقصان میں ھوتے تھے یا بعض مجاھدین درجہ شھادت پر فائز ھوتے تھے، یا اھل اسلام شکست سے دوچار ھوتے تھے تو منافقین اس کا بھانہ لے کر طرح طرح کے شبہ ایجاد کرتے تھے کہ اگر حق پر ھوتے تو شکست نھیں ھوتی، یا قتل نھیں کئے جاتے، اور اس طرح سے مسلمانوں کو شک اور تزلزل میں ڈال دیتے تھے۔

قرآن مجید سے استفادہ ھوتا ھے کہ منافقین نے جنگ احد اور اس کے بعد سے اس انحرافی فکر کو القا کرنے میں اپنی سعی تیز تر کردی تھی۔

(ویقولون لو کان لنا من الأمر شیء ما قتلنا ھھنا)[28]

اور کھتے ھیں کہ اگر اختیار ھمارے ھاتھ میں ھوتا ھم یھاں نہ مارے جاتے۔

منافقین میدان جنگ میں شکست کو نبوت پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اور ان کے آئین کی نا درست و ناسالم ھونے کی علامت سمجھتے تھے اور یہ شبہ ایجاد کرتے تھے اگر یہ (شھدا) میدان جنگ میں نہ جاتے تو شھید نہ ھوتے۔

(الذین قالوا لأخوانھم و قعدوا لو اطاعونا ما قتلوا)[29]

یھی (منافقین) وہ ھیں جنھوں نے اپنے مقتول بھائیوں کے بارے میں یہ کھنا شروع کردیا کہ وہ ھماری اطاعت کرتے تو ھرگز قتل نہ ھوتے۔

خداوند عالم ان کے اس شبہ (جنگ میں شرکت قتل کئے جانے کا سبب ھے) کا جواب بیان کررھا ھے، موت ایک الھی تقدیر و سر نوشت ھے موت سے فرار میسر نھیں، اور معرکہ احد میں قتل کیا جانا نبوت و پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نا سالم ھونے اور ان کے نادرست اقدام کی علامت نھیں، جن افراد نے اس جنگ میں شرکت نھیں کی ھے موت سے گریز و فرار نھیں کرسکتے ھیں یا اس کو موخر کرنے کی قدرت و توانائی نہیں رکھتے ھیں۔

(قل لو کانوا فی بیوتکم لبرز الذین کتب علیھم القتل الی مضاجعھم)[30]

تو آپ کہہ دیجئے کہ اگر تم گھروں میں بھی رہ جاتے تو جن کے لئے شھادت لکھ دی گئی ھے وہ اپنے مقتل تک بہر حال جاتے۔

قرآن موت و حیات کو خدا کے اختیار میں بتاتا ھے معرکہ و جنگ کے میدان میں جانا موت کے آنے یا تاخیر سے آنے میں مؤثر نھیں ھے۔

(واللہ یحیی و یمیت واللہ بما تعملون بصیر)[31]

موت و حیات خدا کے ھاتھ میں ھے اور وہ تمھارے اعمال سے خوب باخبر ھے اس مطلب کی تاکید کی کہ موت و حیات انسان کے اختیار میں نھیں ھے منافقین کے لئے اعلان کیا جارھا ھے کہ اگر تمھارا عقیدہ یہ ھے کہ موت و حیات تمھارے اختیار میں ھے تو جب فرشتۂ مرگ نازل ھو تو اس کو اپنے سے دور کردینا اور اس سے نجات حاصل کرلینا۔

(قل فادرئوا عن انفسکم الموت ان کنتم صادقین)[32]

پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے کہہ دیجئے کہ اگر اپنے دعوے میں سچے ھو تو اب اپنی ھی موت کو ٹال دو۔

مسلمانوں کو اپنے مذھب و عقیدہ میں شک سے دوچار کرنے کے لئے منافقین ھمیشہ یہ نعرہ بلند کیا کرتے تھے، اگر ھم حق پر تھے تو کیوں قتل ھوئے اور کیوں اس قدر ھمیں قربانی دینی پڑی، ھمیں جو جنگ احد میں ضربات و شکست سے دوچار ھونا پڑا ھے اس کا مطلب یہ ھے کہ ھمارا دین اور آئین حق پر نھیں ھے۔

قرآن کے کچھ جوابات اس شبہ کے سلسلہ میں گزر چکے ھیں، اساسی و مرکزی مطلب اس شبہ کو باطل کرنے کے لئے مورد توجہ ھونا چاھئے وہ یہ کہ ظاھری شکست حق پر نہ ھونے کی علامت نھیں ھے جس طریقہ سے ظاھری کامیابی بھی حقانیت کی دلیل نھیں ھے۔

بھت سے انبیاء حضرات کہ جو یقیناً حق پر تھے، اپنے پروگرام کو جاری کرنے میں کامیابی سے ھم کنار نھیں ھوسکے، بنی اسرائیل نے بین الطلوعین ایک روز میں ستر انبیاء کو شھید کر ڈالا اور اس کے بعد اپنے کاموں میں مشغول ھوگئے جیسے کچھ ھوا ھی نھیں، کوئی حادثہ وجود میں آیا ھی نھیں، تو کیا ان پیامبران الھی کا شھید و مغلوب ھونا ان کے باطل ھونے کی دلیل ھے؟ اور بنی اسرائیل کا غالب ھوجانا ان کی حقانیت کی علامت ھے؟ یقیناً اس کا جواب نھیں میں ھے، دین کے سلسلہ میں فریب کی نسبت دینا اور حق پر نہ ھونے کے لئے شبہ پیدا کرنا، منافقین کے القاء شبھات کے دو نمونہ تھے جسے منافقین پیش کرتے تھے لیکن ان کے شبھات کی ایجاد ان دو قسموں پر منحصر و محصور نھیں ھے۔

دین کو اجتماع و معاشرت کے میدان سے جدا کرکے صرف آخرت کے لئے متعارف کرانا، دین کے تقدس کے بھانے دین و سیاست کی جدائی کا نعرہ بلند کرنا، تمام ادیان و مذاھب کے لئے حقانیت کا نظریہ پیش کرنا، صاحب ولایت کا تمام انسانوں کے برابر ھونا، صاحب ولایت کی درایت میں تردید اور اس کے اوامر میں مصلحت سنجی کے نظریہ کو پیش کرنا، احکام الھی کے اجرا ھونے کی ضرورت میں تشکیک وجود میں لانا، خدا محوری کے بجائے انسان محوری کی ترویج کرنا، اس قبیل کے ھزاروں شبھات ھیں جن کو منافقین ترویج کرتے تھے اور کررھے ھیں، تا کہ ان شبھات کے ذریعہ دین کے حقایق و مسلّمات کو ضعیف اور اسلامی معاشرہ سے روح ایمان کو خالی کردیں اور اپنے باطل و بیھودہ مقاصد کو حاصل کرلیں۔

البتہ یہ بات ظاھر و عیاں ھے کہ منافقین مسلمانوں کے اعتقادی و مذھبی یقینیات و مسلّمات میں القاء شبھات کے لئے اس نوع کے مسائل کا انتخاب کرتے ھیں جو اسلامی حکومت و معاشرے کی تشکیل میں مرکزی نقش رکھتے ھیں اور ان کے تسلط و قدرت کے لئے موانع ثابت ھوتے ھیں، اسی بنا پر منافقین کے القاء شبھات کے لئے زیادہ تر سعی و کوشش دین کے سیاسی و اجتماعی مبانی نیز دین و سیاست کی جدائی اور دین کو فردی مسائل سے مخصوص کردینے کے لئے ھوتی ھیں۔


[1] نھج البلاغہ، خطبہ ۲۱۰۔

[2] سورہ منافقون/۱۔

[3] سورہ بقرہ/۱۱، ۱۲۔

[4] سورہ توبہ/۷۴۔

[5] سورہ توبہ/۶۱۔

[6] سورہ منافقون/۲۔

[7] سورہ توبہ/۵۶۔

[8] سورہ توبہ/۶۲۔

[9] نھج البلاغہ، خطبہ۱۹۴۔

[10] نھج البلاغہ، خطبہ ۱۹۴۔

[11] سورہ توبہ/۴۲۔

[12] سورہ توبہ/۹۴۔

[13] سورہ منافقون/۲۔

[14] سورہ بقرہ/۲۰۴۔

[15] سورہ احزاب/۱۵۔

[16] سورہ توبہ/۷۵/۷۷۔

[17] سورہ نحل/۴۲ و سورہ انبیاء/۷۔

[18] رجوع کریں بقرہ/۸۹ /۲۱۵ /۲۱۷ /۲۱۹۔

[19] میزان الحکمۃ ج۴، ص۳۳۰۔

[20] بعض مطالب کو کتاب الاحتجاج، مرحوم طبرسی، ج۱، ۲ میں حاصل کیا جاسکتا ھے۔

[21] نھج البلاغہ، حکمت۳۲۰۔

[22] سورہ بقرہ/۱۸۹۔

[23] نھج البلاغہ، خطبہ۳۸۔

[24] نھج البلاغہ، خطبہ۵۰۔

[25] سورہ انفال/۴۹۔

[26] سورہ احزاب/۱۲۔

[27] سیرۃ ابن ھشام، ج۲، ص۲۱۹، منشور جاوید، ص۷۴، ۷۵۔

[28] سورہ آل عمران/۱۵۴۔

[29] سورہ آل عمران/۱۶۸۔

[30] سورہ آل عمران/۱۵۴۔

[31] سورہ آل عمران/۱۵۶۔

[32] سورہ آل عمران/۱۶۸۔