”اھل جنت میں افضل ترین اور برترین عورتیں چارھیں۔ خویلد کی بیٹی خدیجہ(ع)،محمد کی بیٹی فاطمہ(ع) اور عمران کی بیٹی مریم(ع) اور مزاحم کی بیٹی آسیہ(ع) جو فرعون کی بیوی تھی“۔
قابل توجہ بات یہ ھے کہ فرعون کی بیوی اپنی اس بات سے فرعون کے عظیم قصر کی تحقیر کررھی ھے،اور اسے خدا کے جوار رحمت میں گھر،کے مقابلہ میں کوئی اھمیت نھیں دیتی۔اس گفتگو کے ذریعہ ان لوگوں کے جو اسے یہ نصیحت کرتے تھے کہ ان تمام نمایاں وسائل و امکانات کو جو ملکہٴ مصر هونے کی وجہ سے تیرے قبضہ و اختیار میں ھیں، موسیٰ علیہ السلام جیسے چرواھے پر ایمان لاکر ھاتھ سے نہ دے۔ جواب دیتی ھے:
اور”نجیٰ من فرعون و عملہ“ کے جملہ کے ساتھ خود فرعون سے اور اس کے مظالم اور جرائم سے بیزاری کا اعلان کرتی ھے۔
اور ”نجیٰ من القوم الظالمین“کے جملہ سے اس آلودہ ماحول سے اپنی علیٰحدگی،اور ان کے جرائم سے اپنی بیگانگی کا اظھار کرتی ھے۔
مسلمہ طور پر فرعون کے دربار سے بڑھ کرز رق برق اور جلال و جبروت موجود نھیں تھا۔اسی طرح فرعون جیسے جابر و ظالم کے شکنجوںسے بڑھ کر فشار اور شکنجے موجود نھیں تھے۔ لیکن نہ تو وہ زرق برق اور نہ ھی وہ فشار اور شکنجے اس مومنہ عورت کے گھٹنے جھکا سکے۔ اس نے رضائے خدا میں اپنا سفر اسی طرح سے جاری رکھا۔یھاں تک کہ اپنی عزیز جان اپنے حقیقی محبوب کی راہ میں فدا کردی۔
قابل توجہ بات یہ ھے کہ وہ یہ استدعا کرتی ھے کہ اے خدا جنت میں اوراپنے جوار میں اس کے لئے ایک گھر بنادے جس کا جنت میں هونا تو جنبہٴ جسمانی ھے اور خدا کے جوار رحمت میں هونا جنبہٴ روحانی ھے۔ اس نے ان دونوں کو ایک مختصر سی عبارت میں جمع کردیا ھے۔
ایک طرف موسیٰ علیہ السلام اور ان کے پیروکاروں کے درمیان باھمی نزاع، اور دوسری طرف فرعون اور اس کے ھم نواؤں کے ساتھ لڑائی جھگڑا کافی حد تک بڑھ گیا اوراس دوران میں بہت سے واقعات رونما هوچکے،جنھیں قرآن نے اس مقام پر ذکر نھیں کیا بلکہ ایک خاص مقصد کو جسے ھم بعد میں بیان کریں گے پیش نظر رکھ کر ایک نکتہ بیان کیا گیا ھے کہ حالات بہت خراب هوگئے تو فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلا م کی انقلابی تحریک کو دبانے بلکہ ختم کرنے کے لئے ان کے قتل کی ٹھان لی لیکن ایسا معلوم هوتا ھے کہ گویا اس کے مشیروں اور درباریوں نے اس کے اس فیصلے کی مخالفت کی ۔چنانچہ قرآن کہتا ھے:
”فرعون نے کھا مجھے چھوڑدوتاکہ میں موسیٰ کو قتل کر ڈالوں اور وہ اپنے پروردگار کو بلائے تاکہ وہ اسے اس سے نجات دے“۔[1]
اس سے یہ بات سمجھنے میں مدد ملتی ھے کہ اس کے اکثر یا کم از کم کچھ مشیر موسیٰ علیہ السلام کے قتل کے مخالف تھے وہ یہ دلیل پیش کرتے تھے کہ چونکہ موسیٰ کے کام معجزانہ اور غیر معمولی ھیں لہٰذا هوسکتا ھے کہ وہ ھمارے لئے بددعا کردے تو اس کا خدا ھم پر عذاب نازل کردے لیکن کبر و غرور کے نشے میں مست فرعون کہنے لگا:میں تواسے ضرور قتل کروں گا جو هوگا دیکھا جائے گا۔
یہ بات تو معلوم نھیں ھے کہ فرعون کے حاشیہ نشینوں اور مشیروں نے کس بناء پر اسے موسیٰ علیہ السلام کے قتل سے باز رکھا البتہ یھاں پر چند ایک احتمال ضرور ھیں اور هوسکتا ھے وہ سب کے سب صحیح هوں ۔
ایک احتمال تو یہ ھے کہ ممکن ھے خدا کی طرف سے عذاب نازل هوجائے۔
دوسرا احتمال ان کی نظر میں یہ هوسکتا ھے کہ موسیٰ علیہ السلام کے مارے جانے کے بعد حالات یکسردگر گوں هوجائیں گے کیونکہ وہ ایک شھید کا مقام پالیں گے اور انھیں ھیروکا درجہ مل جائے گا اس طرح سے ان کا دین بہت سے موٴمن،ھمنوا،طرفدار اور ھمدرد پیدا کرلے گا ۔
خلاصہ کلام انھیں اس بات کا یقین هوگیاکہ بذات خود موسیٰ ان کے لئے ایک عظیم خطرہ ھیں لیکن اگر ان حالات میں انھیں قتل کردیا جائے تو یہ حادثہ ایک تحریک میں بدل جائے گا جس پر کنٹرول کرنا بھی مشکل هوجائے گااور اس سے جان چھڑانی مشکل تر هوجائے گی۔
فرعون کے کچھ درباری ایسے بھی تھے جو قلبی طور پر فرعون سے راضی نھیں تھے۔وہ چاہتے تھے کہ موسیٰ علیہ السلام زندہ رھیں اورفرعون کی کی تمام تر توجہ انھی کی طرف مبذول رھے، اس طرح سے وہ چار دن آرام کے ساتھ بسر کرلیں اور فرعون کی آنکھوں سے اوجھل رہ کر ناجائز مفاد اٹھاتے رھیں کیونکہ یہ ایک پرانا طریقہٴ کار ھے کہ بادشاهوں کے درباری اس بات کی فکر میں رہتے ھیں کہ ھمیشہ ان کی توجہ دوسرے امور کی طرف مبذول رھے تا کہ وہ آسودہ خاطر هوکر اپنے ناجائز مفادات کی تکمیل میں لگے رھیں۔اسی لئے تو بعض اوقات وہ بیرونی دشمن کو بھی بھڑکاتے ھیں تاکہ بادشاہ کی فارغ البالی کے شر سے محفوظ رھیں۔
بھر حال فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو قتل کے منصوبے کی توجیہہ کرتے هوئے اپنے درباریوں کے سامنے اس کی دودلیلیں بیان کیں۔ایک کا تعلق دینی اور روحانی پھلو سے تھا اور دوسری کا دنیاوی اور مادی سے ،وہ کہنے لگا:مجھے اس بات کا خوف ھے کہ وہ تمھارے دین کو تبدیل کردے گا اور تمھارے باپ دادا کے دین کو دگر گوں کردے گا،یا یہ کہ زمین میں فساد اور خرابی برباد کردے گا۔[2]
اگر میں خاموشی اختیار کرلوں تو موسیٰ بہت جلد مصر والوں میں اتر جائے گا اور بت پرستی کا”مقدس دین“جو تمھاری قومیت اور مفادات کا محافظ ھے ختم هوجائے گااور اس کی جگہ توحید پرستی کا دین لے لے گا جو یقینا تمھارے سوفیصد خلاف هوگا۔
اگر میں آج خاموشی هوجاؤں اور کچھ عرصہ بعد موسیٰ سے مقابلہ کرنے کے لئے اقدام کروں تو اس دوران میں وہ اپنے بہت سے دوست اور ھمدرد پیدا کرلے گا جس کی وجہ سے زبردست لڑائی چھڑجائے گی جو ملکی سطح پر خونریزی، گڑ بڑاور بے چینی کا سبب بن جائے گی اسی لئے مصلحت اسی میں ھے کہ جتنا جلدی هوسکے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا جائے ۔
اب دیکھنا یہ ھے کہ اس گفتگو سے موسی علیہ السلام نے کس رد عمل کا اظھار کیا جو اس مجلس میں تشریف فرمابھی تھے، قرآن کہتا ھے :موسی نے کھا : ”میں اپنے پروردگار اور تمھارے پروردگار کی ھر اس متکبر سے پناہ مانگتا هوں جو روز حساب پر ایمان نھیں لاتا “۔[3]
موسیٰ علیہ السلام نے یہ باتیں بڑے سکون قلب اور اطمینان خاطر سے کیں جوان کے قوی ایمان اور ذات کردگار پر کامل بھروسے کی دلیل ھیں اور اس طرح سے ثابت کردیا کہ اس کی اس دھمکی سے وہ ذرہ بھر بھی نھیں گھبرائے ۔
حضرت موسی علیہ السلام کی اس گفتگو سے ثابت هوتا ھے کہ جن لوگوں میں مندرجہ ذیل دوصفات پائی جائیں وہ نھایت ھی خطر ناک افراد ھیں ایک ” تکبر“ اور دوسرے ” قیامت پر ایمان نہ رکھنا“ اور اس قسم کے افراد سے خدا کی پناہ مانگنی چاہئے ۔
آیا کسی کو خدا کی طرف بلانے پر بھی قتل کرتے ھیں ؟
یھاں سے موسی علیہ السلام اور فرعون کی تاریخ کا ایک اور اھم کردار شروع هوتا ھے اور وہ ھے ”مئومن آل فرعون “ جو فرعون کے رشتہ داروں میں سے تھا حضرت موسی علیہ السلام کی دعوت توحید قبول کرچکا تھا،لیکن اپنے اس ایمان کو ظاھر نھیں کرتا تھا کیونکہ وہ اپنے آپ کو خاص طریقے سے موسی علیہ السلام کی حمایت کا پابند سمجھتا تھا جب اس نے دیکھا کہ فرعون کے غیظ وغضب سے موسی علیہ السلام کی جان کو خطرہ پیدا هوگیا ھے تو مردانہ وار آگے بڑھا اور اپنی دل نشین اور موثر گفتگو سے قتل کی اس سازش کو ناکام بنادیا ۔
قرآن میں فرمایا گیا ھے :” آل فرعون میں سے ایک شخص نے جو اپنے ایمان کو چھپائے هوئے تھا کھا:
”کیاکسی شخص کو صرف اس بناء پر قتل کرتے هوکہ وہ کہتا ھے کہ میرا رب اللہ ھے ؟“[4]
”حالانکہ وہ تمھارے ربّ کی طرف سے معجزات اور واضح دلائل اپنے ساتھ لایا ھے ۔“[5]
آیا تم اس کے عصا اور یدبیضاء جیسے معجزات کا انکار کرسکتے هو ؟ کیا تم نے اپنی آنکھوں سے اس کے جادو گروں پر غالب آجانے کا مشاہدہ نھیں کیا ؟ یھاں تک کہ جادوگروں نے اس کے سامنے اپنے ہتھیار ڈال دئیے اور ھماری پرواہ تک نہ کی اور نہ ھی ھماری دھمکیوں کو خاطر میں لائے اور موسی کے خدا پر ایمان لاکر اپنا سراس کے آگے جھکادیا، ذرا سچ بتاؤ ایسے شخص کو جادوگر کھا جاسکتا ھے،؟ خوب سوچ سمجھ کر فیصلہ کرو، جلد بازی سے کام نہ لو اور اپنے اس کام کے انجام کو بھی اچھی طرح سوچ لوتاکہ بعد میں پشیمان نہ هونا پڑے ۔
ان سب سے قطع نظر یہ دوحال سے خالی نھیں ” اگر وہ جھوٹا ھے تو جھوٹ اس کا خود ھی دامن گیر هوگا اور اگر سچا ھے تو کم ازکم جس عذاب سے تمھیں ڈرایا گیا ھے وہ کچھ نہ کچھ تو تمھارے پاس پہنچ ھی جائےگا“۔[6]
یعنی اگر وہ جھوٹا ھے جھوٹ کے پاؤں نھیں هوتے ، آخرکار ایک نہ ایک دن اس کا پول کھل جائے گا اور وہ اپنے جھوٹ کی سزا پالے گا لیکن یہ امکان بھی تو ھے کہ شاید وہ سچا هو اور خدا کی جانب سے بھیجا گیا هو تو پھر ایسی صورت میں اس کے کئے هوئے وعدے کسی نہ کسی صورت میں وقوع پذیر هوکررھیں گے لہٰذا اس کا قتل کرنا عقل وخرد سے کو سوں دورھے ۔
اس سے یہ نتیجہ نکلا، ”االلہ تعالیٰ مسرف اور جھوٹے کی ہدا یت نھیں فرماتا“۔ [7]
اگر حضرت موسیٰ تجاوزو اسراف ودروغ کو اختیار کرتے تو یقینااللہ تعالیٰ کی ہدایت حاصل نہ کرتے اور اگر تم بھی ایسے ھی هوگئے تو اس کی ہدایت سے محروم هوجاؤگے ۔
مومن آل فرعون نے اس پر ھی اکتفاء نھیں کی بلکہ اپنی گفتگو کو جاری رکھا، دوستی اور خیر خواھی کے انداز میں ان سے یوں گویا هوا : اے میری قوم ! آج مصر کی طویل وعریض سرزمین پر تمھاری حکومت ھے اور تم ھر لحاظ سے غالب اور کامیاب هو، اس قدر بے انداز نعمتوں کا کفران نہ کرو، اگر خدائی عذاب ھم تک پہنچ گیا تو پھر ھماری کون مدد کرے گا “۔[8]
ظاھر اً اس کی یہ باتیں ” فرعون کے ساتھیوں “ کے لئے غیر موثر ثابت نھیں هوئیں انھیں نرم بھی بنا دیا اور ان کے غصے کو بھی ٹھنڈا کردیا ۔
لیکن یھاں پر فرغون نے خاموشی مناسب نہ سمجھی اس کی بات کاٹتے هوئے کھا: بات وھی ھے جو میں نے کہہ دی ھے۔”جس چیز کا میں معتقد هوں اسی کا تمھیں بھی حکم دیتا هوں میں اس بات کا معتقد هوں کہ ھر حالت میں موسیٰ کو قتل کردینا چاہئے اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نھیں ھے اور میں تو صرف تمھیں صحیح راستہ کی طرف راہنمائی کرتا هوں“۔ [9]
اس دور میں مصر کے لوگ ایک حدتک متمدن اور پڑھے لکھے تھے انهوں نے قوم نوح، عاد اور ثمود جیسی گزشتہ اقوام کے بارے میں موٴرخین کی باتیں بھی سن رکھی تھیں اتفاق سے ان اقوام کے علاقوں کا اس علاقے سے زیادہ فاصلہ بھی نھیں تھا یہ لوگ ان کے دردناک انجام سے بھی کم وبیش واقفیت رکھتے تھے ۔
لہٰذا موٴمن آل فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کے قتل کے منصوبے کی مخالفت کی اس نے دیکھا کہ فرعون کو زبردست اصرار ھے کہ وہ موسی کے قتل سے باز نھیں آئے گا، اس مرد موٴمن نے پھر بھی ھمت نہ ھاری اور نہ ھی ھارنی چاہئے تھی لہٰذا اب کہ اس نے یہ تدبیر سوچی کہ اس سرکش قوم کو گزشتہ اقوام کی تاریخ اور انجام کی طرف متوجہ کرے شاید اس طرح سے یہ لوگ بیدارهوں اور اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں قرآن کے مطابق اس نے اپنی بات یوں شروع کی اس باایمان شخص نے کھا:” اے میری قوم ، مجھے تمھارے بارے میں گزشتہ اقوام کے عذاب کے دن کی طرح کا خوف ھے ۔“[10]
پھر اس بات کی تشریح کرتے هوئے کھا :”میں قوم نوح(ع)، عاد، ثمود اور ان کے بعد آنے والوں کی سی بری عادت سے ڈرتا هوں“۔ [11]
ان قوموں کی عادت شرک،کفر اور طغیان وسرکشی تھی اور ھم دیکھ چکے ھیں کہ ان کا کیا انجام هوا ؟ کچھ تو تباہ کن طوفانوں کی نذر هوگئیں، کچھ وحشت ناک جھگڑوں کی وجہ سے برباد هوئیں، کچھ کو آسمانی بجلی نے جلاکر راکھ کردیا اور کچھ زلزلوں کی بھینٹ چڑھ کر صفحہٴ ہستی سے مٹ گئیں ۔کیا تم یہ نھیں سمجھتے کہ کفراور طغیان پر اصرارکی وجہ سے تم بھی مذکورہ عظیم بلاؤں میں سے کسی ایک کا شکار هوسکتے هو؟ لہٰذا مجھے کہنے دو کہ مجھے تمھارے بارے میں بھی اس قسم کے خطرناک مستقبل کا اندیشہ ھے ۔
آیا تمھارے پاس اس بات کا کوئی ثبوت ھے کہ تمھارے کردار اور افعال ان سے مختلف ھیں ؟ آخران لوگوں کا کیا قصور تھا کہ وہ اس طرح کے بھیانک مستقبل سے دوچار هوئے کیا اس کے سوا کچھ اور تھا کہ انھوں نے خدا کے بھیجے هوئے پیغمبر وں کی دعوت کے خلاف قیام کیا، ان کی تکذیب کی بلکہ انھیں قتل کرڈالا۔
لیکن یادرکھو جو مصیبت بھی تم پر نازل هوگی خود تمھارے کئے کی سزا هوگی کیونکہ ” خدا اپنے بندوں پر ظلم نھیں کرنا چاہتا۔“ [12] پھر کہتا ھے : اے میری قوم! میں تمھاریے لئے اس دن سے ڈرتا هوں جس دن لوگ ایک دوسرے کو پکاریں گے لیکن کوئی مدد نھیں کرے گا“۔[13]
ان بیانات کے ذریعے مومن آل فرعون نے جو کچھ کرنا تھا کردکھایا اس نے فرعون کو جناب موسی کے قتل کی تجویز بلکہ فیصلے کے بارے میں ڈانواڈول کردیا یا کم از کم اسے ملتوی کروادیا اسی التواء سے قتل کا خطرہ ٹل گیا اور یہ تھا اس هوشیار، زیرک اور شجاع مرد خدا کا فریضہ جو اس نے کماحقہ ادا کردیا جیسا کہ بعد کی گفتگوسے معلوم هوگا کہ اس سے اس کی جان کے بھی خطرے میں پڑنے کا اندیشہ هوگیا تھا ۔
پانچویں اور آخری مرحلے پر مومن آل فرعون نے تمام حجاب الٹ دیئے اور اس سے زیادہ اپنے ایمان کو نہ چھپاسکا ،وہ جو کچھ کہنا چاہتا تھا کہہ چکا اور فرعون والوںنے بھی ،جیسا کہ آگے چل کر معلوم هوگا، اس کے بارے میں بڑا خطرناک فیصلہ کیا ۔ خداوند عالم نے بھی اپنے اس مومن اور مجاہد بندے کو تنھا نھیں چھوڑا جیسا کہ قرآن نے بیان کیاھے : ”خدا نے بھی اسے ان کی ناپاک چالوں اور سازشوں سے بچالیا ”۔[14]
اس کی تعبیر سے واضح هوتا ھے کہ فرعونیوں نے اس کے بارے میں مختلف سازشیں اور منصوبے تیار کررکھے تھے ۔
لیکن وہ منصوبے کیا تھے ؟ قرآن نے اس کی تفصیل بیان نھیں کی، ظاھر ھے کہ مختلف قسم کی سزائیں اذیتیں اور آخرکار قتل اور سزائے موت هوسکتی ھے لیکن خداوندعالم کے لطف وکرم نے ان سب کو ناکام بنادیا ۔
چنانچہ بعض تفسیروں میں ھے کہ وہ ایک مناسب موقع سے فائدہ اٹھاتے هوئے موسیٰ علیہ السلام تک پہنچ گیا اور اس نے بنی اسرائیل کے ھمرا ہ دریائے نیل کو عبور کیا، نیز یہ بھی کھا گیا ھے کہ جب اس کے قتل کا منصوبہ بن چکا تو اس نے اپنے آپ کو ایک پھاڑ میں چھپالیا اور نگاهوں سے اوجھل هوگیا ۔
یہ دونوں روایات آپس میں مختلف نھیں ھیں کیونکہ ممکن ھے کہ پھلے وہ شھر سے مخفی هوگیا هو اور پھر بنی اسرائیل سے جا ملاهو ۔
اگرچہ مومن آل فرعون کی باتوں نے فرعون کے دل پر اس قدر اثر کیا کہ وہ موسیٰ علیہ السلام کے قتل سے تو باز آگیا لیکن پھر بھی غرور کی چوٹی سے نیچے نہ اترا اور اپنی شیطنت سے بھی بازنہ آیا اور نہ ھی حق بات قبول کرنے پر آمادہ هوا کیونکہ فرعون کے پاس اس بات کی نہ توصلاحیت تھی اور نہ ھی لیاقت لہٰذا اپنے شیطنت آمیز اعمال کو جاری رکھتے هوئے اس نے ایک نئے کام کی تجویز پیش کی اور وہ ھے آسمانوں پر چڑھنے کے لئے ایک بلندو بالابرج کی تعمیر تاکہ اس پر چڑھ کر موسیٰ کے خدا کی خبر لے آئے ۔
فرعون نے کھا: اے ھامان : میرے لئے ایک بلند عمارت تیار کروتاکہ میں اسباب وذرائع تک پہنچ سکوں ایسے اسباب وذرائع جو مجھے آسمانوں تک لے جاسکیں تاکہ میں موسیٰ کے خدا سے باخبر هوسکوں ھر چند کہ میں گمان کرتاهوں کہ وہ جھوٹاھے ۔
جی ھاں اس قسم کے برے اعمال فرعون کی نظر میں مزین کردیئے گئے تھے اور انھوں نے اسے راہ حق سے روک دیا تھا ،لیکن فرعون کی سازش اور چالوں کا انجام نقصان اور تباھی کے سوا کچھ نھیں “۔[15]
سب سے پھلی چیز جو یھاں پر نظر آتی ھے وہ یہ ھے کہ آخر اس کام سے فرعون کا مقصد کیا تھا؟ آیاوہ واقعاً اس حدتک احمق تھا کہ گمان کرنے لگا کہ موسی کا خدا آسمان میں ھے ؟ بالفرض اگر آسمان میں هو بھی تو آسمان سے باتیں کرنے والے پھاڑوں کے هوتے هوئے اس عمارت کے بنانے کی کیا ضرورت تھی جو پھاڑوں کی اونچائی کے سامنے بالکل ناچیز تھی؟ اور کیا اس طرح سے وہ آسمان تک پہنچ بھی سکتا تھا؟
یہ بات تو بہت ھی بعید معلوم هوتی ھے کیونکہ فرعون مغرور اور متکبر هونے کے باوجود سمجھ دار اور سیاستداں شخص تو ضرورتھا جس کی وجہ سے اس نے ایک عظیم ملت کو اپنی زنجیروں میں جکڑا تھا اور بڑے زور دار طریقے سے اس پر حکومت کرتارھا لہٰذا اس قسم کے افراد کی ھر ھر بات اور ھر ھر حرکت شیطانی حرکات وسکنات کی آئینہ دار هوتی ھیں لہٰذا سب سے پھلے اس کے اس شیطانی منصوبے کا تجزیہ وتحلیل کرنا چاہئے کہ آخر ایسی عمارت کی تعمیر کا مقصد کیا تھا؟
بظاھر یہ معلوم هوتا ھے کہ فرعون نے ان چند مقاصد کے پیش نظر ایسا اقدام کیا :
۱۔وہ چاہتا تھا کہ لوگوں کی فکر کو مصروف رکھے موسیٰ علیہ السلام کی نبوت اور بنی اسرائیل کے قیام کے مسئلہ سے ان کی توجہ ہٹانے کے لئے اس نے یہ منصوبہ تیار کیا، بعض مفسرین کے بقول یہ عمارت ایک نھایت ھی وسیع وعریض زمین میں کھڑی کی گئی جس پر پچاس ہزار مزدور کام کرنے لگے اس تعمیری منصوبے نے دوسرے تمام مسائل کو بھلادیا جوں جوں عمارت بلند هوتی جاتی تھی توں توں لوگوں کی توجہ اس کی طرف زیادہ مبذول هوتی تھی ھر جگہ اور ھر محفل میں نئی خبر کے عنوان سے اس کے چرچے تھے اس نے وقتی طور پر جادو گروں پر موسی علیہ السلام کی کامیابی کو جو کہ فرعون اور فرعونیوں کے پیکر پر ایک کاری ضرب تھی لوگوں کے ذہنوں سے فراموش کردیا ۔
۲۔ وہ چاہتا تھا کہ اس طرح سے زحمت کش اور مزوور طبقے کی جزوی مادی اور اقتصادی امداد کرے اور عارضی طور پر ھی سھی بیکار لوگوں کے لئے کام مھیا کرے تاکہ تھوڑاسا اس کے مظالم کو فراموش کردیں اور اس کے خزانے کی لوگوں کو زیادہ سے زیادہ احتیاج محسوس هو ۔
۳۔پروگرام یہ تھا کہ جب عمارت پایہٴ تکمیل کو پہنچ جائے، تو وہ اس پر چڑھ کر آسمان کی طرف نگاہ کرے اور شاید چلہ کمان میں رکھ کر تیر چلائے اور وہ واپس لوٹ آئے تو لوگوں کو احمق بنانے کے لئے کھے کہ موسی کا خدا جو کچھ بھی تھا آج اس کا خاتمہ هو گیا ھے اب ھر شخص بالکل مطمئن هوکر اپنے اپنے کام میں مصروف هوجائے ۔
وگرنہ فرعون کے لئے تو صاف ظاھر تھا کہ اس کی عمارت جتنی بھی بلند هو چند سو میڑسے زیادہ تو اونچی نھیں جاسکتی تھی جبکہ آسمان اس سے کئی گنا بلند اور اونچے تھے، پھریہ کہ اگر بلند ترین مقام پر بھی کھڑے هوکر آسمان کی طرف دیکھا جائے تو اس کا منظر بغیر کسی کمی بیشی کے ویسے ھی نظر آتا ھے جیسے سطح زمین سے ۔
یہ بات بھی قابل توجہ ھے کہ فرعون نے یہ بات کرکے درحقیقت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے سے ایک قسم کی پسپائی اختیار کی جبکہ اس نے کھا کہ میں موسی کے خدا کے بارے میں تحقیق کرنا چاہتاهوں” فاطلع الی الہ موسی “ اور ساتھ ھی یہ بھی کہتا ھے کہ” ھر چند کہ میں اسے جھوٹا گمان کرتا هوں “ اس طرح سے وہ یقین کی منزل سے ہٹ کر شک اور گمان کے مرحلے تک نیچے آجاتاھے ۔
اس مسئلے میں مفسرین کے ایک گروہ نے (مثلاً فخر رازی اور آلوسی نے ) یہ سوال بھی اٹھایا ھے کہ آیا : فرعون نے اپنا مجوزہ بلند مینار تعمیر کرایا تھا یانھیں؟
ان مفسرین کا ذہن اس طرف اس لئے منتقل هوا کہ مینار کی تعمیر کا کام کسی طرح بھی عاقلانہ نہ تھا کیا اس عہد کے لوگ کبھی بلند پھاڑوں پر نھیں چڑھے تھے ؟ اور انھوں نے آسمان کے منظر کو ویسا ھی نھیں دیکھا تھا جیسا کہ وہ زمین سے نظرآتا ھے ؟کیا انسان کا بنایا هوا مینار پھاڑسے زیادہ اونچا هوسکتا ھے ؟ کیا کوئی احمق بھی یہ یقین کرسکتا ھے کہ ایسے مینار پر چڑھ کر آسمان کو چھوا جاسکتا ھے ؟
لیکن وہ مفسرین جنهوں نے یہ اشکا لات پیدا کئے ھیں ان کی توجہ ان نکات کی طرف نھیں گئی کہ اول تو ملک مصر کو ہستانی نھیں دوم یہ کہ انهوں نے اس عہد کے لوگوں کی سادہ لوحی کو فراموش کردیا کہ ان سیدھے سادھے لوگوںکو ایسے ھی مسائل سے غافل کیا جاسکتا تھا یھاں تک کہ خود ھمارے زمانے جسے عصر علم ودانش کھا جاتاھے، لوگوں کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کے لئے کیسے کیسے مکرو فریب اور حیلہ سازیاں کی جاتی ھیں ۔
بھر کیف ۔بعض تواریخ کے بیان کے مطابق، ھامان نے حکم دیا کہ ایسا محل اور برج بنانے کے لئے زمین کا ایک وسیع قطعہ انتخاب کریں اور اس کی تعمیر کے لئے پچاس ہزار معمار اور مزدور روانہ کردے اور اس عمارت کے واسطے مٹیریل فراھم کرنے کے لئے ہزاروں آدمی مقرر کئے گئے اس نے خزانہ کا منہ کھول دیا اور اس مقصد کے لئے کثیر رقم خرچ کی یھاں تک کہ تمام ملک مصر میں اس عظیم برج کی تعمیر کی شھرت هوگئی ۔
یہ عمارت جس قدر بھی بلند سے بلندتر، هوتی جاتی تھی لوگ اتنے ھی زیادہ اسے دیکھنے آتے تھے اور منتظر تھے کہ دیکھئے فرعون یہ عمارت بنا کر کیا کرتا ھے ؟
یہ عمارت اتنی بلند هوگئی کہ اس سے دوردور تک اطراف وجوانب کا میدان نظر آنے لگا بعض موٴرخین نے لکھا ھے کہ معماروں نے اس کی مارپیچ سیڑھیاں ایسی بنائی تھیں کہ آدمی گھوڑے پر سوار هوکر اس پر چڑھ سکتا تھا ۔
جب وہ عمارت پایہٴ تکمیل کو پہنچ گئی اور اسے مزید بلند کرنے کا کوئی امکان نہ رھا تو ایک روز فرعون پوری شان وشوکت سے وھاں آیا اور بذات خود برج پر چڑھ گیا جب وہ برج کی چوٹی پر پہنچا اور آسمان کی طرف نظر اٹھائی تو اسے آسمان ویسا ھی نظر آیا جیسا کہ وہ زمین سے دیکھا کرتا تھا اس منظر میں ذرا بھی تغیرو تبدیلی نہ تھی ۔
مشهور یہ ھے کہ اس نے مینار پر چڑھ کے کمان میں تیر جوڑا اور آسمان کی طرف پھنکا یا تووہ تیر کسی پرندے کے لگایا پھلے سے کوئی سازش کی گئی تھی کہ تیر خون آلود واپس آیا تب فرعون وھاں سے نیچے اترآیا اور لوگوں سے کھا :جاؤ، مطمئن رهو اور کسی قسم کی فکر نہ کرو میں نے موسی کے خدا کو مارڈالاھے ۔
یہ بات حتمی طور پر کھی جاسکتی ھے کہ سادہ لوحوں اور اندھی تقلید کرنے والوں کے ایک گروہ نے او ران لوگوں نے جن کی آنکھیں اور کان حکومت وقت کے پروپیگنڈے سے بند هوگئے تھے، فرعون کے اس قول کا یقین کرلیا هوگا اور ھر جگہ اس خبر کو عام کیا هوگا اور مصر کی رعایا کو غافل رکھنے کا ایک اور سبب پیدا هوگا ۔
مفسرین نے یہ بھی لکھا ھے کہ یہ عمارت دیر تک قائم نھیں رھی (اور اسے رہنا بھی نہ چاہئے تھا) تباہ هوگئی بہت سے لوگ اس کے نیچے دب کے مرگئے اس سلسلے میں اھل قلم نے اور بھی طرح طرح کی داستانیں لکھی ھیں لیکن ان کی صحت کی تحقیق نہ هوسکی اس لئے انھیں قلم زد کردیا گیا ھے ۔
ایک کلی قانون تمام پیغمبروں کے لئے یہ تھا کہ جب ان کو لوگوں کی مخالفت کا سامنا هو اور وہ کسی طرح سے راہ راست پر نہ آئیں تو خدا ان کو بیدار کرنے کے لئے مشکلات ومصائب میں گرفتار کرتا تھا تاکہ وہ اپنے میں نیاز مندی اور محتاجی کا احساس کریں ، اور ان کی فطرت توحید جو آرام وآسائش کی وجہ سے غفلت کے پردوں میں چلی گئی ھے دوبارہ ابھر آئے اوران کو اپنی ضعف وناتوانی کا اندازہ هو اور اس قادر وتوانا ہستی کی جانب متوجہ هوں جو ھر نعمت و نقمت کا سر چشمہ ھے ۔
قرآن میں اس مطلب کی طرف اشارہ فرمایا گیا ھے : ھم نے آل فرعون کو قحط، خشک سالی اور ثمرات کی کمی میں مبتلا کیا کہ شاہد متوجہ اور بیدار هوجائیں[16]
باوجود یکہ قحط سالی نے فرعونیوں کو گھیر لیا تھا لیکن مذکورہ بالابیان میں صرف فرعون کے مخصوصین کا ذکر کیا گیا ھے مقصد یہ ھے کہ اگر یہ بیدار هوگئے تو سب لوگ بیدار هوجائیں گے کیونکہ تمام لوگوں کی نبض انھی کے ھاتھوں میں ھے یہ چاھیں تو بقیہ افراد کو گمراہ کریں یا ہدایت کریں ۔
اس نکتہ کو بھی نظر انداز نھیں کرنا چاہئے کہ خشک سالی اھل مصر کے لئے ایک بلائے عظیم شمار هوتی تھی کیونکہ مصر پورے طور سے ایک زرعی مملکت تھی اس بناء پر اگر زراعت نہ هوتو اس کا اثر ملک کے تمام افراد پر پڑتا ھے لیکن مسلمہ طور پر فرعون اور اس کے افراد چونکہ ان زمینوں کے مالک اھلی تھے اس لئے فی الحقیقت وہ سب سے زیادہ اس سے متاثر هوئے تھے ۔
ضمناً یہ بھی معلوم هوا کہ یہ خشک سالی کئی سال تک باقی رھی کیونکہ” سنین“ جمع کا صیغہ ھے ۔
لیکن آل فرعون، بجائے اس کے کہ ان الٰھی تنبیهوں سے نصیحت لیتے اور خواب خرگوش سے بیدار هوتے انهوں نے اس سے سوء استفادہ کیا اور ان حوادث کی من مانی تفسیر کی، جب حالات ان کے منشا کے مطابق هوتے تھے تو وہ راحت وآرام میں هوتے تھے اور کہتے کہ یہ حالات ھماری نیکی ولیاقت کی وجہ سے ھیں: ”فی الحقیقت ھم اس کے اھل ولائق ھیں “۔
لیکن جس وقت وہ مشکل ومصیبت میں گرفتار هوتے تھے تو اس کو فوراً موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کے سرباندھ دیتے تھے“ اور کہتے تھے کہ یہ ان کی بد قدمی کی وجہ سے هوا ھے ۔
لیکن قرآن کریم ان کے جواب میں کہتا ھے : ” ان کی بدبختیوں اور تکلیفوں کا سر چشمہ خدا کی طرف سے ھے خدا نے یہ چاھا ھے کہ اس طرح ان کو ان کے اعمال بد کی وجہ سے سزادے لیکن ان میں سے اکثر اس کو نھیں جانتے “۔[17]
قرآن میں ان بیدار کنندہ درسوں کا ایک اور مرحلہ بیان کیا گیا ھے جو خدا نے قوم فرعون کو دیئے جب مرحلہ اول یعنی قحط، خشک سالی اور مالی نقصانات نے ان کو بیدار نہ کیا تو دوسرے مرحلہ کی نوبت پہنچی جو پھلے مرحلہ سے شدید تر تھا اس مرتبہ خدا نے ان کو پے درپے ایسی بلاؤںمیں جکڑا جو ان کو اچھی طرح سے کچلنے والی تھیں مگر افسوس ان کی اب بھی آنکھیں نہ کھلیں ۔
پھلے ان بلاؤں کے نزول کے مقدمہ کے طور پر فرمایا گیا ھے : انهوں نے موسی کی دعوت کے مقابلے میں اپنے عناد کو بدستور باقی رکھا اور ”کھا کہ تم ھر چند ھمارے لئے نشانیاں لاؤ اوران کے ذریعے ھم پر اپنا جادو کرو ھم کسی طرح بھی تم پر ایمان نھیں لائیں گے“۔[18]
لفظ”آیت “ شاید انهوں نے ازراہ تمسخر استعمال کیا تھا ، کیونکہ حضرت موسی نے اپنے معجزات کو آیات الٰھی قرار دیا تھا لیکن انهوں نے سحر قرار دیا۔
آیات کا لہجہ اور دیگر قرائن اس بات کے مظھر ھیں کہ فرعون کے پروپیگنڈوں کا محکمہ جو اپنے زمانے کے لحاظ سے ھر طرح کے سازو سامان سے لیس تھا وہ حضرت موسیٰ کے خلاف ھر طرف سے حرکت میں آگیا تھا اس کے نتیجے میں تمام لوگوں کا ایک ھی نعرہ تھا اور وہ یہ کہ اے موسیٰ ! تم تو ایک زبردست جادو گر هو ، کیونکہ موسیٰ کی بات کو رد کرنے کا ان کے پاس اس سے بہتر کوئی جواب نہ تھا جس کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں وہ گھربنانا چاہتے تھے ۔
لیکن چونکہ خدا کسی قوم پر اس وقت تک اپنا آخری عذاب نازل نھیں کرتا جب تک کہ اس پر خوب اچھی طرح سے اتمام حجت نہ کرلے اس لئے بعد والی آیت میں فرمایا گیا ھے کہ ھم نے پھلے طرح طرح کی بلائیں ان پر نازل کیں کہ شاید ان کو هوش آجائے ۔[19]
”پھلے ھم نے ان پر طوفان بھیجا“
اس کے بعد قرآن میں ارشاد هوتا ھے:
”اس کے بعد ھم نے ان کی زراعتوں اور درختوں پر ٹڈیوں کو مسلط کردیا۔“
روایات میں وارد هوا ھے کہ کہ اللہ نے ان پر ٹڈیاں اس کثرت سے بھیجیں کہ انھوں نے درختوں کے شاخ و برگ کا بالکل صفایا کردیا، حتی کہ ان کے بدنوں تک کو وہ اتنا آزار پہنچاتی تھیں کہ وہ تکلیف سے چیختے چلاتے تھے۔
جب بھی ان پر بلا نازل هوتی تھی تو وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فریاد کرتے تھے کہ وہ خدا سے کہہ کر اس بلا کو ہٹوادیں طوفان اور ٹڈیوں کے موقع پر بھی انھوں نے جناب موسیٰ علیہ السلام سے یھی خواہش کی ، جس کو موسیٰ علیہ السلام نے قبول کرلیا اور یہ دونوں بلائیں برطرف هوگئیں، لیکن اس کے بعد پھر وہ اپنی ضد پر اتر آئے جس کے نتیجے میں تیسری بلا ”قمّل “ کی ان پر نازل هوئی۔
”قمّل“ سے کیا مراد ھے؟ اس بارے میں مفسرین کے درمیان گفتگو هوئی ھے لیکن ظاھر یہ ھے کہ یہ ایک قسم کی نباتی آفت تھی جو زراعت کو کھاجاتی تھی۔
جب یہ آفت بھی ختم هوئی اور وہ پھر بھی ایمان نہ لائے،تو اللہ نے مینڈک کی نسل کو اس قدر فروغ دیا کہ مینڈک ایک نئی بلا کی صورت میں ان کی زندگی میں اخل هوگئے۔
جدھر دیکھتے تھے ھر طرف چھوٹے بڑے مینڈک نظر آتے تھے یھاں تک کہ گھروں کے اندر، کمروں میں، بچھونوں میں، دسترخوان پر کھانے کے برتنوں میں مینڈک ھی مینڈک تھے، جس کی وجہ سے ان کی زندگی حرام هوگئی تھی، لیکن پھر بھی انھوں نے حق کے سامنے اپنا سرنہ جھکایا اور ایمان نہ لائے۔
بعض مفسرین نے کھا کہ خون سے مراد ”مرض نکسیر“ ھے جو ایک وبا کی صورت میں ان میں پھیل گیا، لیکن بہت سے مفسرین نے لکھا ھے کہ دریائے نیل لهو رنگ هوگیا اتنا کہ اس کا پانی مصرف کے لائق نہ رھا۔
آخر میں قرآن فرماتا ھے: ” ان معجزوں اور کھلی نشانیوں کو جو موسیٰ کی حقانیت پر دلالت کرتی تھیں،ھم نے ان کو دکھلایا لیکن انھوں نے ان کے مقابلہ میں تکبر سے کام لیا اور حق کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور وہ ایک مجرم او رگناہگار قوم تھے۔“[20]
بعض روایات میں ھے کہ ان میں سے ھر ایک بلا ایک ایک سال کے لئے آتی تھی یعنی ایک سال طوفان و سیلاب، دوسرے سال ٹڈیوں کے دَل، تیسرے سال نباتاتی آفت، اسی طرح آخر تک، لیکن دیگر روایات میں ھے کہ ایک آفت سے دوسری آفت تک ایک مھینہ سے زیادہ فاصلہ نہ تھا، بھر کیف اس میںشک نھیں کہ ان آفتوں کے درمیان فاصلہ موجود تھا( جیسا کہ قرآن نے لفظ ”مفصلات“ سے تعبیر کیا ھے)تاکہ ان کو تفکر کے لئے کافی موقع مل جائے۔
قابل توجہ بات یہ ھے کہ یہ بلائیں صرف فرعون اور فرعون والوں کے دامن گیر هوتی تھیں، بنی اسرائیل اس سے محفوظ تھے، بے شک یہ اعجاز ھی تھا ،لیکن اگر نکتہ ذیل پر نظر کی جائے تو ان میں سے بعض کی علمی توجیہہ بھی کی جاسکتی ھے۔
ھمیں معلوم ھے کہ مصر جیسی سرسبز و شاداب اور خوبصورت سلطنت جو دریائے نیل کے کناروں پر آباد تھی اس کے بہترین حصے وہ تھے جو دریاسے قریب تھے وھاں پانی بھی فراوان تھا اور زراعت بھی خوب هوتی تھی ،تجارتی کشتیاں وغیرہ بھی دستیاب تھیں، یہ خطے فرعون والوں اور قبطیوں کے قبضے میں تھے جھاں انھوں نے اپنے قصر و باغات بنا رکھے تھے اس کے بر خلاف اسرائیلوں کو دور دراز کے خشک اور کم آب علاقے دئے گئے تھے جھاں وہ زندگی کے یہ سخت دن گذارتے تھے کیونکہ ان کی حیثیت غلاموں جیسی تھی۔
بنا بر این یہ ایک طبیعی امر ھے کہ جب سیلاب اور طوفان آیا تو اس کے نتیجے میں وہ آبادیاں زیادہ متاثر هوئیں جو دریائے نیل کے دونوں کناروں پر آباد تھیں، اسی طرح مینڈھک بھی پانی سے پیدا هوتے ھیں جو قبطیوں کے گھروں کے آس پاس بڑی مقدار میں موجود تھے، یھی حال خون کا ھے کیونکہ رود نیل کا پانی خون هو گیا تھا، ٹڈیاں اور زرعی آفتیں بھی باغات، کھیتوں اور سر سبز علاقوں پر حملہ کرتی ھیں، لہٰذا ان عذابوں سے زیادہ تر نقصان قبطیوں ھی کا هوتا تھا۔
جو کچھ قرآن میں ذکر هوا ھے اس کا ذکر موجودہ توریت میں بھی ملتا ھے، لیکن کسی حد تک فرق کے ساتھ۔[21]
قرآن میں فرعونیوں کے اس رد عمل کا ذکر کیا گیا ھے جو انهوں نے پروردگار عالم کی عبرت انگیزاور بیدار کنندہ بلاؤں کے نزول کے بعد ظاھر کیا،ان تما م قرآنی گفتگو سے یہ ظاھر هوتا ھے کہ جس وقت وہ بلا کے چنگل میں گرفتار هو جاتے تھے،جیسا کہ عام طور سے تباہ کاروں کا دستور ھے،وقتی طور پر خواب غفلت سے بیدار هوجاتے تھے اور فریاد وزاری کرنے لگتے تھے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے درخواست کرتے تھے کہ خدا سے ان کی نجات کے لئے دعا کریں۔ چونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ان کے لئے دعا کرتے تھے اور وہ بلا ان کے سروں سے ٹل جاتی تھی،مگر ان کی حالت یہ تھی کہ جونھی وہ بلا سر سے ٹلتی تھی تو وہ تمام چیزوں کو بھول جاتے تھے اور وہ اپنی پھلی نا فرمانی اور سرکشی کی حالت پر پلٹ جاتے تھے۔
جس وقت ان پر بلا مسلط هوتی تھی تو کہتے تھے:” اے موسیٰ !ھمارے لئے اپنے خدا سے دعا کرو کہ جو عہد اس نے تم سے کیا ھے اسے پورا کرے اور تمھاری دعا ھمارے حق میں قبول کرے،اگر تم یہ بلا ھم سے دور کردو تو ھم یہ وعدہ کرتے ھیں کہ ھم خود بھی تم پر ضرور ایمان لائیں گے اور بنی اسرائیل کو بھی یقینا تمھارے ھمرا ہ روانہ کردیں گے“۔[22]
اس کے بعد ان کی پیمان شکنی کا ذکر کیا گیا ھے،ارشاد هوتا ھے:”جس وقت ھم ان پر سے بلاؤں کو تعین شدہ مدت کے بعد ہٹا دیتے تھے تو وہ اپنا وعدہ توڑ ڈالتے تھے[23]
نہ خود ھی ایمان لاتے تھے اور نہ ھی بنی اسرائیل کو اسیری سے آزاد کرتے تھے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام ان کایک مدت معین کرتے تھے کہ فلا ں وقت یہ بلا بر طرف هوجائے گی تاکہ ان پر اچھی طرح کھل جائے کہ یہ بلا کوئی اتفاقی حادثہ نہ تھا بلکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا کی وجہ سے تھا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی منطق ایک طرف ان کے مختلف معجزات دوسری طرف مصر کے لوگوں پر نازل هونیوالی بلائیں جو موسیٰ علیہ السلا م کی دعا کی برکت سے ٹل جاتی تھیں تیسری طرف،ان سب اسباب نے مجموعی طور پر اس ماحول پر گھرے اثرات ڈالے اور فرعون کے بارے میںلوگوں کے افکار کو ڈانواںڈول
کردیا اور انھیں پورے مذھبی اور معاشرتی نظام کے بارے میں سوچنے پر مجبور کردیا۔
اس موقع پر فرعون نے دھوکہ دھڑی کے ذریعہ موسیٰ علیہ السلام کا اثر مصری لوگوں کے ذہن سے ختم کرنے کی کوشش کی اور پست اقدار کا سھارا لیا جو اس ماحول پر حکم فرماتھا، انھیں اقدار کے ذریعہ اپنا اور موسیٰ علیہ السلام کا موازنہ شروع کردیا تا کہ اس طرح لوگوں پر اپنی برتری کو پایہٴ ثبوت تک پہنچائے، جیسا کہ قرآن پاک فرماتا ھے:
”اور فرعون نے اپنے لوگوں کو پکار کر کھا:اے میری قوم! آیا مصر کی وسیع و عریض سر زمین پر میری حکومت نھیں ھے اور کیا یہ عظیم دریا میرے حکم سے نھیں بہہ رھے ھیں اور میرے محلوں،کھیتوں اور باغوں سے نھیں گررھے ھیں؟کیا تم دیکھتے نھیں هو؟“[24]
لیکن موسیٰ علیہ السلام کے پاس کیا ھے،کچھ بھی نھیں ، ایک لاٹھی اور ایک اونی لباس اور بس ،تو کیا اس کی شخصیت بڑی هوگی یا میری؟ آیا وہ سچ بات کہتا ھے یا میں؟اپنی آنکھیں کھولوں اور بات اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کرو۔ اس طرح فرعون نے مصنوعی اقدار کو لوگوں کے سامنے پیش کیا،بالکل ویسے ھی جیسے عصر جاھلیت کے بت پرستوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے مقابلے میں مال و مقام کو صحیح انسانی اقدار سمجھ رکھا تھا۔
لفظ”نادیٰ“(پکار کر کھا )سے معلوم هوتا ھے کہ فرعون نے اپنی مملکت کے مشاھیر کی ایک عظیم محفل جمائی اور بلند آواز کے ساتھ ان سب کو مخاطب کرتے هوئے یہ جملے ادا کیے،یا حکم دیا کہ اس کی اس آواز کو ایک سرکاری حکم نامے کے ذریعے پورے ملک میں بیان کیا جائے۔
قرآن آگے چل کر فرماتا ھے کہ فرعون نے کھا:”میں اس شخص سے برتر هوں جو ایک پست خاندان اور طبقے سے تعلق رکھتا ھے۔اور صاف طور پر بات بھی نھیں کرسکتا“۔[25]
اس طرح سے اس نے اپنے لئے دو بڑے اعزازات(حکومت مصر اور نیل کی مملکت)اور موسیٰ علیہ السلام کے دوکمزور پھلو(فقر اور لکنت زبان) بیان کردیئے۔
حالانکہ اس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زبان میں لکنت نہ تھی۔کیونکہ خدا نے ان کی دعا کو قبول فرمالیا تھا اور زبان کی لکنت کو دور کردیا تھا کیونکہ موسیٰ علیہ السلام نے مبعوث هوتے ھی خداسے یہ دعا مانگی تھی کہ۔ ”خدا وندا میری زبان کی گرھیں کھول دے“۔ [26]اور یقینا ان کی دعا قبول هوئی اور قرآن بھی اس بات پر گواہ ھے۔ بے پناہ دولت،فاخرہ لباس اور چکاچوند کرتے محلات،مظلوم طبقے پر ظلم و ستم کے ذریعے حاصل هوتے ھیں۔ ان کا مالک نہ هونا صرف عیب کی بات ھی نھیں بلکہ باعث صدافتخار شرافت اور عزت کا سبب بھی ھے۔
”مھین“(پست)کی تعبیر سے ممکن ھے اس دور کے اجتماعی طبقات کی طرف اشارہ هو، کیونکہ اس دور میں بڑے بڑے سرمایہ داروں کا معاشرہ کے بلند طبقوں میں شمار هوتا تھا او رمحنت کشوں اور کم آمدنی والے لوگوں کا پست طبقے میں ،یا پھر ممکن ھے موسیٰ علیہ السلام کی قوم کی طرف اشارہ هو کیونکہ ان کا تعلق بنی اسرائیل سے تھا اور فرعون کی قبطی قوم اپنے آپ کو سردار اور آقا سمجھتی تھی۔ پھر فرعون دو اور بھانوں کا سھارا لیتے هوئے کہتا ھے:”اسے سونے کے کنگن کیوں نھیں دیئے اور اس کے لئے مددگار کیوں نھیں مقرر کئے تاکہ وہ اس کی تصدیق کریں؟“ اگر خدا نے اسے رسول بنایا ھے تو دوسرے رسول کی طرح طلائی کنگن کیوں نھیں دئے گئے اور اس کے لئے مدد گار کیوں نھیں مقرر کئے گئے۔
کہتے ھیں کہ فرعونی قوم کا عقیدہ تھا کہ روساء اور سر براهوں کو ھمیشہ طلائی کنگنوں اور سونے کے ھاروں سے مزین هونا چاہئیے اور چونکہ موسیٰ علیہ السلام کے پاس اس قسم کے زیورات نھیں تھے بلکہ ان زیورات کے بجائے وہ چرواهوں والا موٹا سا اونی کرتا زیب تن کئے هوئے تھے،لہٰذا ان لوگوں نے اس بات پر تعجب کا اظھار کیا اور یھی حال ان لوگوں کا هوتا ھے جو انسانی شخصیت کے پرکھنے کا معیار سونا،چاندی اور دوسرے زیورات کو سمجھتے ھیں۔
اس بارے میں ایک نھایت عمدہ بیان آیا ھے ،امام علی بن ابی طالب علیھما السلام فرماتے ھیں:موسیٰ علیہ السلام اپنے بھائی(ھارون) کے ساتھ فرعون کے دربار میں پہنچے دونوں کے بدن پراونی لباس اور ھاتھوں میں عصا تھا اس حالت میں انھوں نے شرط پیش کی کہ اگر فرمان الٰھی کے سامنے جھک جائے تو اس کی حکومت اور ملک باقی اور اقتدار قائم و برقرار رھے گا،لیکن فرعون نے حاضرین سے کھا:تمھیں ان کی باتوں پر تعجب نھیں هوتا کہ میرے ساتھ شرط لگا رھے ھیں کہ میرے ملک کی بقا اور میری عزت کا دوام ان کی مرضی کے ساتھ وابستہ ھے جبکہ ان کا اپنا حال یہ ھے کہ فقر و تنگدستی ان کی حالت اور صورت سے ٹپک رھی ھے(اگر یہ سچ کہتے ھیں تو)خود انھیں طلائی کنگن کیوں نھیں دیئے گئے۔
دوسرا بھانہ وھی مشهور بھانہ ھے جو بہت سی گمراہ اور سرکش امتیں انبیاء کرام علیھم السلام کے سامنے پیش کیا کرتی تھیں،کبھی تو کہتی تھیں کہ”وہ انسان کیوں ھے اور فرشتہ کیوں نھیں؟اور کبھی کہتی تھی کہ اگر وہ انسان ھے تو پھر کم از کم اس کے ھمراہ کوئی فرشتہ کیوں نھیں آیا؟“
حالانکہ انسانوں کی طرف بھیجے هوئے رسولوں کوروح انسانی کا حامل هونا چاہئے تا کہ وہ ان کی ضرورتوں،مشکلوں اور مسائل کو محسوس کرسکیں اور انھیں ان کا جواب دے سکیں اور عملی لحاظ سے ان کے لئے نمونہ اور اسوہ قرار پاسکیں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام میدان مقابلہ میں فرعون پر غالب آگئے اور سرخرو اور سرفراز هوکر میدان سے باھر آئے اگر چہ فرعون اور اس کے تمام درباری ان پر ایمان نہ لائے لیکن اس کے چند اھم نتائج ضرور برآمد هوئے،جن میں سے ھر ایک اھم کامیابی شمار هوتا ھے۔
۱۔بنی اسرائیل کا اپنے رھبر اور پیشوا پر عقیدہ مزید پختہ هوگیا اور انھیں مزید تقویت مل گئی چنانچہ ایک دل اور ایک جان هو کر ان کے گرد جمع هوگئے کیونکہ انھوں نے سالھا سال کی بدبختی اور دربدر کی ٹھوکریں کھانے کے بعد اب اپنے اندر کسی آسمانی پیغمبر کو دیکھا تھا جو کہ ان کی ہدایت کابھی ضامن تھا اور ان کے انقلاب،آزادی اور کامیابی کا بھی رھبر تھا۔
۲۔موسیٰ علیہ السلام نے مصریوں اور قبطیوں تک کے درمیان ایک اھم مقام حاصل کرلیا۔ کچھ لوگ ان کی طرف مائل هوگئے اور جو مائل نھیں هوئے تھے وہ کم ازکم کم ان کی مخالفت سے ضرور گھبراتے تھے اور جناب موسیٰ علیہ السلام کی صدائے دعوت تمام مصر میں گونجنے لگی۔
۳۔سب سے بڑھ کر یہ کہ فرعون عوامی افکار اور اپنی جان کو لاحق خطرے سے بچاؤ کے لئے اپنے اندر ایسے شخص کے ساتھ مقابلے کی طاقت کھوچکا تھا جس کے ھاتھ میں اس قسم کا عصا اور منہ میں اس طرح کی گویا زبان تھی۔
مجموعی طور پر یہ امور موسیٰ علیہ السلام کے لئے اس حد تک زمین ھموار کرنے میں معاون ثابت هوئے کہ مصریوں کے اندر ان کے پاؤں جم گئے اور انھوں نے کھل کر اپنا تبلیغی فریضہ انجام دیا اور اتمام حجت کی۔
قرآن میںفرعونیوں کے خلاف بنی اسرائیل کے قیام اور انقلاب کا ایک اور مرحلہ بیان کیا گیا ھے۔پھلی بات یہ ھے کہ خدا فرماتا ھے:”ھم نے موسیٰ اور اس کے بھائی کی طرف وحی کی کہ سرزمین مصر میں اپنی قوم کے لئے گھروں کا انتخاب کرو“۔[27]
”اور خصوصیت کے ساتھ ان گھروں کو ایک دوسرے کے قریب اور آمنے سامنے بناؤ[28]
پھر روحانی طور پر اپنی خود سازی اور اصلاح کرو”اور نماز قائم کرو۔“اس طرح سے اپنے نفس کو پاک اور قوی کرو۔[29]
اور اس لئے کہ خوف اور وحشت کے آثار ان کے دل سے نکل جائیں اور وہ روحانی و انقلابی قوت پالیں”مومنین کوبشارت دو“کامیابی اور خدا کے لطف و رحمت کی بشارت۔[30]
زیر بحث آیات کے مجموعی مطالعے سے معلوم هوتا ھے کہ اس زمانے میں بنی اسرائیل منتشر،شکست خوردہ،وابستہ،طفیلی،آلودہ اور خوف زدہ گروہ کی شکل میں تھے،نہ ان کے پاس گھر تھے نہ کوئی مرکز تھا،نہ ان کے پاس معنوی اصلاح کا کوئی پروگرام تھا اور نہ ھی ان میں اس قدر شجاعت،عزم اور حوصلہ تھا جو شکست دینے والے انقلاب کے لئے ضروری هوتا ھے۔لہٰذا حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے بھائی حضرت ھارون علیہ السلام کو حکم ملاکہ وہ بنی اسرائیل کی مرکزیت کے لئے خصوصاً روحانی حوالے سے چند امور پر مشتمل پروگرام شروع کریں۔
۱۔مکان تعمیر کریں اور اپنے مکانات فرعونیوں سے الگ بنائیں۔ اس میں متعدد فائدے تھے۔
ایک یہ کہ سرزمین مصر میں ان کے مکانات هوں گے تو وہ اس کا دفاع زیادہ لگاؤ سے کریں گے۔
دوسرا یہ کہ قبطیوں کے گھروں میں طفیلی زندگی گزارنے کے بجائے وہ اپنی ایک مستقل زندگی شروع کرسکیں گے۔
تیسرا یہ کہ انکے معاملات اور تدابیر کے راز دشمنوں کے ھاتھ نھیں لگیں گے۔
۲۔اپنے گھر ایک دوسرے کے آمنے سامنے اور قریب قریب بنائیں،بنی اسرائیل کی مرکزیت کے لئے یہ ایک موثر کام تھا اس طرح سے وہ اجتماعی مسائل پر مل کر غور فکر کرسکتے تھے اور مذھبیمراسم کے حوالے سے جمع هوکر اپنی آزادی کے لئے ضروری پروگرام بنا سکتے تھے۔
۳۔عبادت کی طرف متوجہ هوں،خصوصاً نماز کی طرف کہ جو انسان کو بندوں کی بندگی سے جدا کرتی ھے اور اس کا تعلق تمام قدرتوں کے خالق سے قائم کردیتی ھے۔ اس کے دل اور روح کو گناہ کی آلودگی سے
پاک کرتی ھے اپنے آپ پر بھروسہ کرنے کا احساس زندہ کرتی ھے اورقدرت پروردگار کا سھارا لے کر انسانی جسم میں ایک تازہ روح پھونک دیتی ھے۔
۴۔ایک رھبر کے طور پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا گیا ھے کہ وہ بنی اسرائیل کی روحوں میں موجود طویل غلامی اور ذلت کے دور کا خوف ووحشت نکال باھر پھینکیں اور حتمی فتح ونصرت،کامیابی اور پروردگار کے لطف وکرم کی بشارت دے کر مومنین کے ارادے کو مضبوط کریں اور ان میں شھامت و شجاعت کی پرورش کریں۔
اس روش کو کئی سال گزر گئے اور اس دوران میں موسیٰ علیہ السلام نے اپنے منطقی دلائل کے ساتھ ساتھ انھیں کئی معجزے بھی دکھائے ۔
جب موسیٰ علیہ السلام ان لوگوں پر اتمام حجت کرچکے اور مومنین ومنکرین کی صفیں ایک دوسرے سے جدا هوگئیں تو موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کے کوچ کرنے کا حکم دے دیا گیا، چنانچہ قرآن نے اس کی اسطرح منظر کشی کی۔
سب سے پھلے فرمایا گیاھے:”ھم نے موسیٰ پر وحی کی کہ راتوںرات میرے بندوں کو(مصر سے باھر)نکال کرلے جاؤ،کیونکہ وہ تمھارا پیچھا کرنے والے ھیں“۔[31]
موسیٰ علیہ السلام نے اس حکم کی تعمیل کی اور دشمن کی نگاهوں سے بچ کر بنی اسرائیل کو ایک جگہ اکٹھا کرنے کے بعد کوچ کا حکم دیا اور حکم خدا کے مطابق رات کو خصوصی طور پر منتخب کیا تاکہ یہ منصوبہ صحیح صورت میں تکمیل کو پہنچے۔
لیکن ظاھر ھے کہ اتنی بڑی تعداد کی روانگی ایسی چیز نھیں تھی جو زیادہ دیر تک چھپی رہ جاتی۔ جاسوسوں نے جلد ھی اس کی رپورٹ فرعون کو دے دی اور جیسا کہ قرآن کہتا ھے:” فرعون نے اپنے کارندے مختلف شھروں میں روانہ کردیئے تا کہ فوج جمع کریں“۔[32]
البتہ اس زمانے کے حالات کے مطابق فرعون کا پیغام تمام شھروں میں پہنچانے کے لئے کافی وقت کی ضرورت تھی لیکن نزدیک کے شھروں میں یہ اطلاع بہت جلد پہنچ گئی اور پھلے سے تیار شدہ لشکر فوراً حرکت میں آگئے اور مقدمة الجیش اور حملہ آور لشکر کی تشکیل کی گئی اور دوسرے لشکر بھی آہستہ آہستہ ان سے آملتے رھے۔
ساتھ ھی لوگوں کے حوصلے بلند رکھنے اور نفسیاتی اثر قائم رکھنے کے لئے اس نے حکم دیا کہ اس بات کا اعلان کردیا جائے کہ”وہ تو ایک چھوٹا سا گروہ ھے“۔ [33] (تعداد کے لحاظ سے بھی کم اور طاقت کے لحاظ سے بھی کم)۔
لہٰذا اس چھوٹے سے کمزور گروہ کے مقابلے میں ھم کامیاب هوجائیں گے گھبرانے کی کوئی بات نھیں۔کیونکہ طاقت اور قوت ھمارے پاس زیادہ ھے لہٰذا فتح بھی ھماری ھی هوگی۔
فرعون نے یہ بھی کھا:” آخر ھم کس حد تک برداشت کریں اور کب تک ان سرکش غلاموں کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرتے رھیں؟انھوں نے تو ھمیں غصہ دلایا ھے“۔[34]
آخر کل مصر کے کھیتوں کی کون آبپاشی کرے گا؟ھمارے گھر کون بنائے گا؟اس وسیع و عریض مملکت کا کون لوگ بوجھ اٹھائیں گے؟اور ھماری نوکری کون کرے گا؟
اس کے علاوہ” ھمیں ان لوگوں کی سازشو ںسے خطرہ ھے(خواہ وہ یھاں رھیں یا کھیں اور چلے جائیں)اور ھم ان سے مقابلہ کے لئے مکمل طور پر آمادہ اور اچھی طرح هوشیار ھیں“۔[35]
پھر قرآن پاک فرعونیوں کے انجام کا ذکر کرتا ھے اور اجمالی طور پر ان کی حکومت کے زوال اور بنی اسرائیل کے اقتدار کو بیان کرتے هوئے کہتا ھے:”ھم نے انھیں سر سبز باغات اور پانی سے لبریز چشموں سے باھر نکال دیا“۔[36]خزانوں،خوبصورت محلات اور آرام و آسائش کے مقامات سے بھی نکال دیا۔
ھاں ھاں!!ھم نے ایسا ھی کیا اور بنی اسرائیل کو بغیر کسی مشقت کے یہ سب کچھ دےدیا اور انھیں فرعون والوں کا وارث بنادیا۔[37]
قرآن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کی داستان کا آخری حصہ پیش کیا گیا ھے کہ فرعون اور فرعون والے کیونکر غرق هوئے اور بنی اسرائیل نے کس طرح نجات پائی؟ جیسا کہ ھم گزشتہ میں پڑھ چکے ھیں کہ فرعون نے اپنے کارندوں کو مصر کے مختلف شھروں میں بھیج دیا تاکہ وہ بڑی تعداد میں لشکر اور افرادی قوت جمع کرسکیں چنانچہ انھوں نے ایسا ھی کیا اور مفسرین کی تصریح کے مطابق فرعون نے چھ لاکھ کا لشکر مقدمہ الجیش کی صورت میں بھیج دیا اور خود دس لاکھ کے لشکر کے ساتھ ان کے پیچھے پیچھے چل دیا ۔!!
ساری رات بڑی تیزی کے ساتھ چلتے رھے اورطلوع آفتاب کے ساتھ ھی انھوں نے موسیٰ علیہ السلام کے لشکر کو پالیا، چنانچہ اس سلسلے کی پھلی آیت میں فرمایا گیا ھے : فرعونیووں نے ان کا تعاقب کیا اور طلوع آفتاب کے وقت انھیں پالیا۔
”جب دونوں گروهوں کا آمناسامنا هوا تو موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی کہنے لگے اب تو ھم فرعون والوں کے نرغے میں آگئے ھیں اور بچ نکلنے کی کوئی راہ نظر نھیں آتی “۔ [38]
ھمارے سامنے دریا اور اس کی ٹھاٹھیں مارتی موجیں ھیں، ھمارے پیچھے خونخوارمسلح لشکر کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ھے لشکر بھی ایسے لوگوں کا ھے جو ھم سے سخت ناراض اور غصے سے بھرے هوئے ھیں، جنھوں نے اپنی خونخواری کا ثبوت ایک طویل عرصے تک ھمارے معصوم بچوں کو قتل کرکے دیا ھے اور خود فرعون بھی بہت بڑا مغرور،ظالم اور خونخوار شخص ھے لہٰذا وہ فوراً ھمارا محاصرہ کرکے ھمیں موت کے گھاٹ اتاردیں گے یاقیدی بنا کر تشدد کے ذریعے ھمیں واپس لے جائیں گے قرائن سے بھی ایسا ھی معلوم هورھا تھا ۔
اس مقام پر بنی اسرائیل پر کرب و بے چینی کی حالت طاری هوگئی اور ان کا ایک ایک لمحہ کرب واضطراب میں گزر نے لگا یہ لمحات ان کے لئے زبردست تلخ تھے شاید بہت سے لوگوں کا ایما ن بھی متزلزل هوچکا تھا اور بڑی حدتک ان کے حوصلے پست هوچکے تھے ۔
لیکن جناب موسیٰ علیہ السلام حسب سابق نھایت ھی مطمئن اور پر سکون تھے انھیں یقین تھا کہ بنی اسرائیل کی نجات اورسرکش فرعونیوں کی تباھی کے بارے میں خدا کا فیصلہ اٹل ھے اور وعدہ یقینی ھے ۔
لہٰذا انھوں نے مکمل اطمینان اور بھرپور اعتمادکے ساتھ بنی اسرائیل کی وحشت زدہ قوم کی طرف منہ کرکے کھا: ”ایسی کوئی بات نھیں وہ ھم پر کبھی غالب نھیں آسکیں گے کیونکہ میرا خدا میرے ساتھ ھے اور وہ بہت جلدی مجھے ہدایت کرے گا “۔[39]
اسی موقع پر شاید بعض لوگوں نے موسیٰ کی باتو ں کو سن تو لیا لیکن انھیں پھر بھی یقین نھیں آرھا تھا اور وہ اسی طرح زندگی کے آخری لمحات کے انتظار میں تھے کہ خدا کا آخری حکم صادر هوا، قرآن کہتا ھے :” ھم نے فوراً موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ اپنے عصا کودریا پرمارو“۔[40]
وھی عصاجو ایک دن تو ڈرانے کی علامت تھا اور آج رحمت اور نجات کی نشانی ۔
موسیٰ علیہ السلام نے تعمیل حکم کی اور عصا فوراًدریاپر دے مارا تو اچانک ایک عجیب وغریب منظر دیکھنے میں آیا جس سے بنی اسرائیل کی آنکھیں چمک اٹھیں اور ان کے دلو ں میں مسرت کی ایک لھردوڑگئی، ناگھانی طور پر دریا پھٹ گیا، پانی کے کئی ٹکڑے بن گئے اور ھر ٹکڑا ایک عظیم پھاڑ کی مانند بن گیا اور ان کے درمیان میں راستے بن گئے۔ [41]
بھرحال جس کا فرمان ھر چیز پر جاری اور نافذ ھے اگر پانی میں طغیانی آتی ھے تو اس کے حکم سے اور اگر طوفانوں میں حرکت آتی ھے تو اس کے امر سے ، وہ خدا کہ :
نقش ہستی نقشی ازایوان اوست آب وبادوخاک سرگردان اوست
اسی نے دریا کی موجوں کو حکم دیا امواج دریا نے اس حکم کو فورا ًقبول کیاایک دوسرے پر جمع پرهوگئیں اور ان کے درمیان کئی راستے بن گئے اور بنی اسرائیل کے ھر گروہ نے ایک ایک راستہ اختیار کرلیا ۔
فرعون اور اس کے ساتھی یہ منظر دیکھ کر حیران وششد ررہ گئے،اس قدر واضح اور آشکار معجزہ دیکھنے کے باوجود تکبر اور غرور کی سواری سے نھیں اترے، انھوں نے موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کا تعاقب جاری رکھا اور اپنے آخری انجام کی طرف آگے بڑھتے رھے جیسا کہ قرآن فرماتاھے :”اور وھاںپر دوسرے لوگوں کو بھی ھم نے نزدیک کردیا“۔
اس طرح فرعونی لشکر دریائی راستوں پر چل پڑے اور وہ لوگ اپنے ان پرانے غلاموں کے پیچھے دوڑتے رھے جنھوں نے اب اس غلامی کی زنجیریں توڑدی تھیں لیکن انھیں یہ معلوم نھیں تھا کہ یہ ان کی زندگی کے آخری لمحات ھیں اور ابھی عذاب کا حکم جاری هونے والا ھے ۔
قرآن کہتا ھے :”ھم نے موسیٰ اور ان تمام لوگوں کو نجات دی جوان کے ساتھ تھے ۔“[42]
ٹھیک اس وقت جبکہ بنی اسرائیل کا آخری فرددریا سے نکل رھا تھا اور فرعونی لشکر کا آخری فرد اس میں داخل هورھاتھا ھم نے پانی کو حکم دیا کہ اپنی پھلی حالت پر لوٹ آ،اچانک موجیں ٹھاٹھیں مارنے لگیں اور فرغون اور اس کے لشکر کو گھاس پھونس اور تنکوں کی طرح بھاکرلے گئیں اور صفحہ ہستی سے ان کانام ونشان تک مٹادیا ۔
قرآن نے ایک مختصرسی عبارت کے ساتھ یہ ماجرایوں بیان کیا ھے : پھر ھم نے دوسروں کو غرق کردیا۔“[43]
بھر کیف یہ معاملہ چل رھا تھا ” یھاں تک کہ فرعون غرقآب هونے لگا اور وہ عظیم دریائے نیل کی موجوں میں تنکے کی طرح غوطے کھانے لگا تو اس وقت غرور وتکبر اور جھالت وبے خبری کے پردے اس کی آنکھوں سے ہٹ گئے اور فطری نور توحید چمکنے لگا وہ پکاراٹھا :” میں ایمان لے آیا کہ اس کے سوا کوئی معبود نھیں کہ جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ھیں “۔[44]
کہنے لگا کہ نہ صرف میں اپنے دل سے ایمان لایا هوں” بلکہ عملی طور پر بھی ایسے توانا پروردگار کے سامنے سرتسلیم خم کرتا هوں“۔ [45]
درحقیقت جب حضرت موسیٰ کی پیشین گوئیاں یکے بعد دیگرے وقوع پذیر هوئیں اور فرعون اس عظیم پیغمبر کی گفتگو کی صداقت سے آگاہ هوا اور اس کی قدر ت نمائی کامشاہدہ کیا تو اس نے مجبوراً اظھار ایمان کیا، اسے امید تھی کہ جیسے ”بنی اسرائیل کے خدا“ نے انھیں کوہ پیکر موجوں سے سے نجات بخشی ھے اسے بھی نجات دے گا، لہٰذا وہ کہنے لگامیں اسی بنی اسرائیل کے خدا پر ایمان لایا هوں، لیکن ظاھر ھے کہ ایسا ایمان جو نزول بلا اور موت کے چنگل میں گرفتار هونے کے وقت ظاھر کیا جائے، در حقیقت ایک قسم کا اضطراری ایمان ھے، جس کا اظھار سب مجرم اور گناہگار کرتے ھیں، ایسے ایمان کی کوئی قدر و قیمت نھیں هوتی، اور نہ یہ حسن نیت اور صدق ِگفتار کی دلیل هوسکتا ھے۔
اسی بنا پر خدا وندعالم نے اسے مخاطب کرتے هوئے فرمایا:” تو اب ایمان لایا ھے حالانکہ اس سے پھلے تو نافرمانی اورطغیان کرنے والوں ، مفسدین فی الارض اور تباہ کاروں کی صف میں تھا“۔ [46]
”لیکن آج ھم تیرے بدن کو موجوں سے بچالیں گے تاکہ تو آنے والوں کے لئے درس عبرت هو، برسراقتدار مستکبرین کے لئے، تمام ظالموں اور مفسدوں کےلئے اور مستضعف گروهوں کے لئے بھی “
یہ کہ”بدن سے مراد یھاں کیا ھے ،اس سلسلے میں مفسرین میںاختلاف ھے ان میں سے اکثر کا نظریہ ھے کہ اس سے مراد فرعون کا بے جان جسم ھے کیونکہ اس ماحول کے لوگوں کے ذہن میں فرعون کی اس قدر عظمت تھی کہ اگر اس کے بدن کو پانی سے باھرنہ اچھالاجاتاتو بہت سے لوگ یقین ھی نہ کرتے کہ اس کا غرق هونا بھی ممکن ھے اور هوسکتا تھا کہ اس ماجرے کے بعد فرعون کی زندگی کے بارے میں افسانے تراش لئے جاتے ۔
یہ امر جاذب توجہ ھے کہ لغت میں لفظ ” بدن“ جیسا کہ راغب نے مفردات میں کھا ھے ” جسد عظیم“ کے معنی میں ھے اس سے معلوم هوتاھے کہ بہت سے خوشحال لوگوں کی طرح کہ جنکی بڑی زرق برق افسانوی زندگی تھی وہ بڑا سخت اور چاک وچوبند تھا مگر بعض دوسرے افراد نے کھاھے کہ”بدن“ کا ایک معنی” زرہ“ بھی ھے یہ اس طرف اشارہ ھے کہ خدا نے فرعون کو اس زریں زرہ سمیت پانی سے باھر نکالاکہ جو اس کے بدن پر تھی تاکہ اس کے ذریعے پہچاناجائے اور کسی قسم کا شک وشبہ باقی نہ رھے ۔
اب بھی مصر اور برطانیہ کے عجائب گھروں میں فرعونیوں کے مومیائی بد ن موجود ھیں کیا ان میںحضرت موسیٰ علیہ السلام کے ھم عصر فرعون کا بدن بھی ھے کہ جسے بعد میں حفاظت کے لئے مومیالیا گیا هویا نھیں؟ اس سلسلے میں کوئی صحیح دلیل ھمارے پاس نھیں ھے ۔
قرآن مجید میں بارھا اس بات کو دھرایا گیا ھے کہ موسیٰ علیہ السلام نے خدا کے حکم سے بنی اسرائیل کو” بحر“ عبور کروایا اورچند مقامات پر”یم“ کا لفظ بھی آیا ھے ۔
اب سوال یہ ھے کہ یھاںپر ”یم“” بحر“ اور ” یم“ سے کیا مراد ھے آیایہ نیل (NILE RIYER) جیسے وسیع وعریض دریا کی طرف اشارہ ھے کہ سرزمین مصر کی تمام آبادی جس سے سیراب هوتی تھی یا بحیرہ احمریعنی بحر قلزم (RID SEA)کی طرف اشارہ ھے ۔
موجودہ تو ریت اور بعض مفسرین کے انداز گفتگو سے معلوم هوتاھے کہ بحیرہ احمر کی طرف اشارہ ھے لیکن ایسے قرائن موجود ھیں جن سے معلوم هوتا ھے کہ اس سے مراد نیل کا عظیم ووسیع دریا ھے ۔
قرآن میں بنی اسرائیل کی سرگزشت کے ایک اور اھم حصہ کی طرف اشارہ کیا گیا ھے یہ واقعہ فرعونیوں پر ان کی فتحیابی کے بعد هوا، اس واقعہ سے بت پرستی کی جانب ان کی توجہ ظاھر هوتی ھے ۔
واقعہ یہ ھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کے جھگڑے سے نکل چکے تو ایک اور داخلی مصیبت شروع هوگئی جو بنی اسرائیل کے جاھل ، سرکش اور فرعون اور فرعونیوں کے ساتھ جنگ کرنے سے بدر جھا سخت اور سنگین تر تھی اور ھر داخلی کشمکش کا یھی حال هواکرتا ھے ۔قرآن میںفرمایاگیا ھے:” ھم نے بنی اسرائیل کو دریا (نیل) کے اس پار لگا دیا :“
لیکن ” انهوں نے راستے میں ایک قوم کو دیکھا جو اپنے بتوں کے گرد خضوع اور انکساری کے ساتھ اکٹھا تھے“ ۔[47]امت موسیٰ علیہ السلام کے جاھل افراد یہ منظر دیکھ کر اس قدر متاثر هوئے کہ فوراً حضرت موسیٰ کے پاس آئے اور ” وہ کہنے لگے اے موسیٰ! ھمارے واسطے بھی بالکل ویسا ھی معبود بنادو جیسا معبود ان لوگوں کا ھے“۔[48]حضرت موسیٰ علیہ السلام ان کی اس جاھلانہ اور احمقانہ فرمائش سے بہت ناراض هوئے ، آپ نے ان لوگوں سے کھا: ”تم لوگ جاھل وبے خبر قوم هو“۔[49]
بنی اسرائیل میں ناشکر گزار افراد کی کثرت تھی،باوجود یکہ انهوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اتنے معجزے دیکھے، قدرت کے اتنے انعامات ان پر هوئے، ان کا دشمن فرعون نابود هوا ابھی کچھ عرصہ بھی نھیں گذرا تھا، وہ غرق کردیا گیا اور وہ سلامتی کے ساتھ دریا کو عبور کرگئے لیکن انهوں نے ان تمام باتوں کو یکسر بھلادیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بت سازی کا سوال کربیٹھے۔
نہج البلاغہ میں ھے کہ ایک مرتبہ ایک یهودی نے حضرت امیرالمو منین علیہ السلام کے سامنے مسلمانوں پر اعتراض کیا:
”ابھی تمھارے نبی دفن بھی نہ هونے پائے تھے کہ تم لوگوں نے اختلاف کردیا “۔
حضرت علی علیہ السلام نے اس کے جواب میں فرمایا :
ھم نے ان فرامین واقوال کے بارے میں اختلاف کیا ھے جو پیغمبر سے ھم تک پہنچے ھیں، پیغمبریا ان کی نبوت سے متعلق ھم نے کوئی اختلاف نھیں کیا (چہ جائیکہ الوھیت کے متعلق ھم نے کوئی بات کھی هو)لیکن تم (یهودی) ابھی تمھارے پیر دریا کے پانی سے خشک نھیں هونے پائے تھے کہ تم نے اپنے نبی (حضرت موسیٰ علیہ السلام) سے یہ کہہ دیا کہ ھمارے لئے ایک ایسا ھی معبود بنادو جس طرح کہ ان کے متعدد معبود ھیں، اور اس نبی نے تمھارے جواب میں تم سے کھا تھا کہ تم ایک ایسا گروہ هوجو جھل کے دریا میں غوطہ زن ھے ۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی بات کی تکمیل کے لئے بنی اسرائیل سے کھا: ”اس بت پرست گروہ کو جو تم دیکھ رھے هو ان کا انجام ھلاکت ھے اور ان کاھر کام باطل وبے بنیادھے “۔[50]
اس کے بعد مزید تاکید کے لئے فرمایا گیا ھے : ”آیا خدائے برحق کے علاوہ تمھارے لئے کوئی دوسرا معبود بنالوں، وھی خدا جس نے اھل جھان (ھمعصر لوگوں)پر تم کو فضیلت دی “۔[51]
اس کے بعد خداوند کریم اپنی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت کا ذکر فرماتا ھے جو اس نے بنی اسرائیل کوعطا فرمائی تھی تاکہ اس عظیم نعمت کا تصور کرکے ان میں شکر گزاراری کا جذبہ بیدار هواور انھیں یہ احساس هوکہ پرستش اور سجدے کا مستحق صرف خدائے یکتا ویگانہ ھے، اور اس بت کی کوئی دلیل نھیں پائی جاتی کہ جو بت بے نفع اور بے ضرر ھیں ان کے سامنے سر تعظیم جھکایا جائے ۔
پھلے ارشاد هوتا ھے :” یاد کرو اس وقت کو جب کہ ھم نے تمھیں فرعون کے گروہ کے شرسے نجات دیدی، وہ لوگ تم کو مسلسل عذاب دیتے چلے آرھے تھے“۔[52]
اس کے بعد اس عذاب وایزارسانی کی تفصیل یوں بیان فرماتاھے:وہ تمھارے بیٹوں کو تو قتل کردیتے تھے اور تمھاری عورتوں لڑکیوں کو(خدمت اور کنیزی کے لئے) زندہ چھوڑدیتے تھے“ ۔[53]
قرآن میں اس کے بعد سرزمین مقدس میں بنی اسرائیل کے ورود کے بارے میں یوں بیان کیا گیا ھے:” موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کھا کہ تم سرزمین مقدس میں جسے خدا نے تمھارے لئے مقرر کیا ھے۔داخل هوجاؤ، اس سلسلے میں مشکلات سے نہ ڈرو، فدا کاری سے منہ نہ موڑو اور اگر تم نے اس حکم سے پیٹھ پھیری تو خسارے میں رهوگے “۔[54]
ارض مقدسہ سے کیا مراد ھے اس، اس سلسلے میں مفسرین نے بہت کچھ کھا ھے، بعض بیت المقدس کہتے ھیں کچھ اردن یا فلسطین کانام لیتے ھیں اور بعض سرزمین طور سمجھتے ھیں، لیکن بعید نھیں کہ اس سے مراد منطقہ شامات هو، جس میں تمام مذکورہ علاقے شامل ھیں ۔
کیونکہ تاریخ شاہد ھے کہ یہ سارا علاقہ انبیاء الٰھی کا گهوراہ، عظیم ادیان کے ظهور کی زمین اور طول تاریخ میں توحید، خدا پرستی اور تعلیمات انبیاء کی نشرواشاعت کا مرکزرھاھے۔
لہٰذا اسے سرزمین مقدس کھاگیا ھے اگرچہ بعض اوقات خاص بیت المقدس کو بھی ارض مقدس کھاجاتاھے۔
بنی اسرائیل نے اس حکم پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو وھی جواب دیا جو ایسے موقع پر کمزور، بزدل اور جاھل لوگ دیا کرتے ھیں ۔
ایسے لوگ چاہتے ھیں کہ تمام کامیابیاں انھیں اتفاقا ًاور معجزانہ طور پر ھی حاصل هوجائیں یعنی لقمہ بھی کوئی اٹھاکران کے منہ میں ڈال دے وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہنے لگے :” آپ جانتے ھیں کہ اس علاقے میں ایک جابر اور جنگجو گروہ رہتاھے جب تک وہ اسے خالی کرکے باھر نہ چلاجائے ھم تو اس علاقے میں قدم تک نھیں رکھیں گے اسی صورت میں ھم آپ کی اطاعت کریں گے اور سرزمین مقدس میں داخل هوں گے “۔[55]
بنی اسرائیل کا یہ جواب اچھی طرح نشاندھی کرتا ھے کہ طویل فرعونی استعمارنے ان کی نسلوں پر کیسا اثر چھوڑا تھا لفظ” لن “ جود ائمی پر دلالت کرتا ھے اس سے ظاھر هوتا ھے کہ وہ لوگ سرزمین مقدس کی آزادی کے لئے مقابلے سے کس قدر خوف زدہ تھے ۔
چاہئے تو یہ تھا کہ بنی اسرائیل سعی وکوشش کرتے، جھادو قربانی کے جذبے سے کام اور سرزمین مقدس پر قبضہ کرلیتے اگر فرض کریں کہ سنت الٰھی کے برخلاف بغیر کسی اقدام کے ان کے تمام دشمن معجزانہ طور پر نابود هوجاتے اور بغیر کوئی تکلیف اٹھائے وہ وسیع علاقے کے وارث بن جاتے تو اس کانظام چلانے اور اس کی حفاظت میں بھی ناکام رہتے بغیر زحمت سے حاصل کی هوئی چیز کی حفاظت سے انھیں کیا سروکار هوسکتا تھا نہ وہ اس کے لئے تیار هوتے اور نہ اھل ۔
جیسا کہ تواریخ سے ظاھر هوتا ھے آیت میں قوم جبار سے مراد قوم ”عمالقہ“ ھے یہ لوگ سخت جان اور بلند قامت تھے یھاں تک کہ ان کی بلند قامت کے بارے میں بہت مبالغے هوئے اور افسانے تراشے گئے اس سلسلے میں مضحکہ خیز باتیں گھڑی گئیں جن کے لئے کوئی عملی دلیل نھیں ھے ۔[56]
اس کے بعد قرآن کہتا ھے :”اس وقت اھل ایمان میں سے دوافراد ایسے تھے جن کے دل میں خوف خدا تھا اور اس بنا پر انھیں عظیم نعمتیں میسر تھیں ان میں استقامت وشجاعت بھی تھی ، وہ دور اندیش بھی تھے اور اجتماعی اور فوجی نقطہ نظر سے بھی بصیرت رکھتے تھے انھوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دفاعی تجویز کی حمایت کی اور بنی اسرائیل سے کہنے لگے : تم شھر کے دروازے سے داخل هوجاؤ اور اگر تم داخل هوگئے تو کامیاب هوجاؤ گے “۔
لیکن ھر صورت میں تمھیں روح ایمان سے مدد حاصل کرنا چاہئے اور خدا پر بھروسہ کروتاکہ اس مقصد کو پالو ۔“[57]
اس بارے میں کہ یہ دو آدمی کون تھے ؟اکثر مفسرین نے لکھا ھے کہ وہ” یوشع بن نون“ اور” کالب بن یوفنا“(”یفنہ “بھی لکھتے ھیں ) تھے جو بنی اسرائیل کے نقیبوں میں سے تھے ۔
بنی اسرائیل نے یہ تجویز قبول نہ کی اور ضعف وکمزوری جوان کی روح پر قبضہ کرچکی تھی، کے باعث انھوں نے صراحت سے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کھا:” جب تک وہ لوگ اس سرزمین میں ھیں ھم ھرگز داخل نھیں هوں گے، تم اور تمھارا پروردگار جس نے تم سے کامیابی کا وعدہ کیا ھے،جاؤ اور عمالقہ سے جنگ کرو اور جب کامیاب هوجاؤ تو ھمیں بتادینا ھم یھیں بیٹھے ھیں۔ [58]
بنی اسرائیل نے اپنے پیغمبر کے ساتھ جسارت کی انتھاکردی تھی، کیونکہ پھلے تو انھوں نے لفظ ”لن“ اور” ابداً“ استعمال کرکے اپنی صریح مخالفت کا اظھار کیا اورپھر یہ کھا کہ تم اور تمھارا پروردگار جاؤ اور جنگ کرو، ھم تو یھاں بیٹھے ھیں ،انھوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے وعدوں کی، تحقیر کی یھاں تک کہ خدا کے ان دوبندوں کی تجویز کی بھی پرواہ نھیں کی اور شاید انھیں تو کوئی مختصر سا جواب تک نھیں دیا۔
یہ امر قابل توجہ ھے کہ موجودہ توریت سفر اعداد باب ۱۴میں بھی اس داستان کے بعض اھم حصے موجود ھیں ۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام ان لوگوں سے بالکل مایوس هوگئے اور انھوں نے دعا کے لئے ھاتھ اٹھا دیئے اور ان سے علیحدگی کے لئے یوں تقاضا کیا : ”پروردگارمیرا تو صرف اپنے آپ پر اور اپنے بھائی پر بس چلتا ھے : خدایا !ھمارے اور اس فاسق وسرکش گروہ میں جدائی ڈال دے“۔ [59]
آخرکار حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا قبول هوئی اور بنی اسرائیل اپنے ان برے اعمال کے انجام سے دوچار هوئے خدا کی طرف سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو وحی هوئی :”یہ لوگ اس مقدس سرزمین سے چالیس سال تک محروم رھیں گے جو طرح طرح کی مادی اورر وحانی نعمات سے مالامال ھے“۔[60]
علاوہ ازیں ان چالیس سالوں میں انھیں اس بیابان میں سرگرداں رہنا هوگا اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا گیا ھے : ”اس قوم کے سرپر جو کچھ بھی آئے وہ صحیح ھے، ان کے اس انجام پر کبھی غمگین نہ هونا “۔[61]
آخری جملہ شاید اس لئے هو کہ جب بنی اسرائیل کے لئے یہ فرمان صادر هوا کہ وہ چالیس سال تک سزا کے طور پر بیابان میں سرگرداںرھیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دل میں جذبٴہ مھربانی پیدا هوا هو اور شاید انھوں نے درگاہ خداوندی میں ان کے لئے عفوودر گذر کی درخواست بھی کی هوجیسا کہ موجودہ توریت میں بھی ھے۔
لیکن انھیں فوراً جواب دیا گیا کہ وہ اس سزا کے مستحق ھیں نہ کہ عفوودرگذرکے، کیونکہ جیسا کہ قرآن میں ھے کہ وہ فاسق اور سرکش لوگ تھے اور جو ایسے هوں ان کے لئے یہ انجام حتمی ھے ۔
توجہ رھے کہ ان کے لئے چالیس سال کی یہ محرومیت انتقامی جذبے سے نہ تھی (جیسا کہ خدا کی طرف سے کوئی سزا بھی ایسی نھیں هوتی بلکہ وہ یا اصلاح کے لئے هوتی ھے اور یا عمل کا نتیجہ)درحقیقت اس کا ایک فلسفہ تھا اور وہ یہ کہ بنی اسرائیل ایک طویل عرصے تک فرعونی استعمار کی ضربیں جھیل چکے تھے،اس عرصے میں حقارت آمیز رسومات،اپنے مقام کی عدم شناخت اور احساسات ذلت کا شکار هو چکے تھے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے عظیم رھبر کی سر پرستی میں اس تھوڑے سے عرصے میں اپنی روح کو ان خامیوں سے پاک نھیں کرسکے تھے اور وہ ایک ھی جست میں افتخار،قدرت اور سربلندی کی نئی زندگی کے لئے تیار نھیں هو پائے تھے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے انھیں مقدس سرزمین کے حصول کے لئے جھاد آزادی کا جو حکم دیا تھا اس پر عمل نہ کرنے کے لئے انھوں نے جو کچھ کھا وہ اس حقیقت کی واضح دلیل ھے لہٰذا ضروری تھا کہ وہ ایک طویل مدت وسیع بیابانو ںمیں سرگرداں رھیں اور اس طرح ان کی ناتواں اور غلامانہ ذہنیت کی حامل موجودہ کمزور نسل آہستہ آہستہ ختم هوجائے اور نئی نسل حریت و آزادی کے ماحول میں اورخدائی تعلیمات کی آغوش میں پروان چڑھے تاکہ وہ اس قسم کے جھاد کے لئے اقدام کرسکے او راس طرح سے اس سرزمین پر حق کی حکمرانی قائم هو سکے۔
بنی اسرارئیل کا ایک گروہ اپنے کئے پر سخت پشیمان هوا۔انهوں نے بارگاہ خدا کا رخ کیا۔خدا نے دوسری مرتبہ بنی اسرائیل کو اپنی نعمتوں سے نوازا جن میں سے بعض کی طرف قرآن میں اشارہ کیا گیا ھے۔
”ھم نے تمھارے سر پر بادل سے سایہ کیا“۔[62]سر خط وہ مسافر جو صبح سے غروب تک سورج کی گرمی میں بیابان میں چلتا ھے وہ ایک لطیف سائے سے کیسی راحت پائے گا(وہ سایہ جو بادل کا هو جس سے انسان کے لئے نہ تو فضا محدود هوتی هو اور نہ جو هوا چلنے سے مانع هو)۔
یہ صحیح ھے کہ بادل کے سایہ فگن ٹکڑوںکا احتمال ھمیشہ بیابان میں هوتا ھے لیکن قرآن واضح طور پر کہہ رھا ھے کہ بنی اسرئیل کے ساتھ ایسا عام حالات کی طرح نہ تھا بلکہ وہ لطف خدا سے اکثر اس عظیم نعمت سے بھرہ ور هوتے تھے۔
دوسری طرف اس خشک اور جلادینے والے بیابان میں چالیس سا ل کی طویل مدت سرگرداں رہنے والوں کے لئے غذا کی کافی و وافی ضرورت تھی،اس مشکل کو بھی خداوند عالم نے ان کے لئے حل کردیا ،جیسا کہ اشاد هوتا ھے:ھم نے” من وسلویٰ“ جو لذیذ اور طاقت بخش غذا ھے تم پر نازل کیا۔
ان پاکیزہ غذاؤں سے جو تمھیں روزی کے طور پر دی گئی ھیں کھاؤ(اور حکم خدا کی نافرمانی نہ کرو اور اس کی نعمت کا شکر اداکرو۔)
لیکن وہ پھر بھی شکر گزاری کے دروازے میں داخل نھیں هوئے(تاھم)”انهوں نے ھم پر کوئی ظلم نھیں کیا بلکہ اپنے اوپر ھی ظلم کیا ھے“۔[63]
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منقول ایک روایت کے مطابق،آپ نے فرمایا:
”کھمبی کی قسم کی ایک چیز تھی جو اس زمین میں اُگتی تھی“۔پس معلوم هوا کہ ”منّ“ایک ”قارچ“تھی جو اس علاقہ میں پیدا هوتی تھی۔[64]
بعض نے کھا ھے کہ” منّ“ سے مراد وہ تمام نعمتیں جو خدانے بنی اسرائیل کو عطا فرمائی تھیں اور سلویٰ وہ تمام عطیات ھیں جو ان کی راحت و آرام اور اطمینان کا سبب تھے۔
”سلویٰ“اگر چہ بعض مفسرین نے اسے شہد کے ھم معنی لیا ھے لیکن دوسرے تقریباًسب مفسرین نے اسے پرندے کی ایک قسم قرار دیا ھے۔یہ پرندہ اطراف اور مختلف علاقوں سے کثرت سے اس علاقے میں آتا تھا اور بنی اسرائیل اس کے گوشت سے استفادہ کرتے تھے۔عہدین پر لکھی گئی تفسیر میں بھی اس نظریہ کی تائید دکھائی دیتی ھے۔[65]
البتہ بنی اسرائیل کی سرگردانی کے دنوں میں ان پر خدا کا یہ خاص لطف وکرم تھا کہ یہ پرندہ وھاں کثرت سے هوتا تھا تا کہ وہ اس سے استفادہ کرسکیں۔ ورنہ تو عام حالات میں اس طرح کی نعمت کا وجود مشکل تھا۔
بنی اسرائیل پر کی گئی ایک اور نعمت کی نشاندھی کرتے هوئے اللہ فرماتا ھے:”یاد کرو اس وقت کو جب موسیٰ علیہ السلام نے(اس خشک اورجلانے والے بیا بان میں جس وقت بنی اسرائیل پانی کی وجہ سے سخت تنگی میں مبتلا تھے)پانی کی درخواست کی“۔[66]تو خدا نے اس درخواست کو قبول کیا جیسا کہ قرآن کہتا ھے:ھم نے اسے حکم دیا کہ اپنا عصا مخصوص پتھر پر مارو اس سے اچانک پانی نکلنے لگا اور پانی کے بارہ چشمے زور و شور سے جاری هوگئے۔[67]بنی اسرائیل کے قبائیل کی تعداد کے عین مطابق جب یہ چشمے جاری هوئے تو ایک چشمہ ایک قبیلے کی طرف جھک جاتا تھا جس پر بنی اسرائیل کے لوگوں”اور قبیلوں میں سے ھر ایک نے اپنے اپنے چشمے کو پہچان لیا۔[68]
یہ پتھر کس قسم کا تھا،حضرت موسیٰ علیہ السلام کس طرح اس پر عصا مارتے تھے اور پانی اس میں سے کیسے جاری هوجاتا تھا۔اس سلسلے میں بہت کچھ گفتگو کی گئی ھے۔قرآن جو کچھ اس بارے میں کہتا ھے وہ اس سے زیا دہ نھیں کہ موسیٰ علیہ السلام نے اس پر عصا مارا تو اس سے بارہ چشمے جاری هوگئے۔
بعض مفسرین کہتے ھیں کہ یہ پتھر ایک کوہستانی علاقے کے ایک حصے میں واقع تھا جو اس بیابان کی طرف جھکا هوا تھا۔ سورہٴ اعراف آیہ۱۶۰کی تعبیراس بات کی نشاندھی کرتی ھے کہ ابتداء میں اس پتھر سے تھوڑا تھوڑا پانی نکلا ،بعد میں زیادہ هوگیا،یھاںتک کہ بنی اسرائیل کا ھر قبیلہ ان کے جانور جو ان کے ساتھ تھے اور وہ کھیتی جو انهوں نے احتمالاً اس بیابان کے ایک حصے میں تیار کی تھی سب اس سے سیراب هوگئے،یہ کوئی تعجب کی بات نھیں کہ کوہستانی علاقے میں پتھر کے ایک حصے سے پانی جاری هوا البتہ یہ مسلم ھے کہ یہ سب معجزے سے رونما هوا۔[69]
بھر حال ایک طرف خداوند عالم نے ان پر من و سلویٰ نازل کیا اور دوسری طرف انھیں فراوان پانی عطا کیا اور ان سے فرمایا:”خدا کی دی هوئی روزی سے کھاؤ پیوٴ لیکن زمین میں خرابی اور فساد نہ کرو“۔[70]
گویا انھیں متوجہ کیا گیاھے کہ کم از کم ان عظیم نعمتوں کی شکر گزاری کے طور پر ضدی پن،ستمگری،انبیاء کی ایذا رسانی اور بھانہ بازی ترک کردو۔
ان نعمات فراوان کی تفصیل کے بعد جن سے خدا نے بنی اسرائیل کو نوازا تھا۔ قرآن میں ان عظیم نعمتوں پر ان کے کفران اور ناشکر گزاری کی حالت کو منعکس کیا گیا ھے۔اس میں اس بات کی نشاندھی ھے کہ وہ کس قسم کے ہٹ دھرم لوگ تھے۔شاید تاریخ دنیا میں ایسی کوئی مثال نہ ملے گی کہ کچھ لوگوں پر اس طرح سے الطاف الٰھی هو لیکن انهوں نے اس طرح سے اس کے مقابلے میں ناشکر ی اور نا فرمانی کی هو۔
پھلے فرمایا گیا ھے:
”یاد کرو اس وقت کو جب تم نے کھا :اے موسیٰ !ھم سے ھر گز یہ نھیں هوسکتا کہ ایک ھی غذا پر قناعت کرلیں،(من و سلویٰ کتنی ھی لذیذ غذا هو، ھم مختلف قسم کی غذا چاہتے ھیں۔[71]
”لہٰذا خدا سے خواہش کرو کہ وہ زمین سے جو کچھ اگایا کرتا ھے ھمارے لئے بھی اگائے سبزیوں میں سے،ککڑی،لہسن،مسور اور پیاز“۔[72]
لیکن موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کھا:”کیا تم بہتر کے بجائے پست تر غذا پسند کرتے هو“۔[73]
”جب معاملہ ایسا ھی ھے تو پھر اس بیابان سے نکلو اور کسی شھر میں داخل هونے کی کوشش کروکیونکہ جو کچھ تم چاہتے هو وہ وھاں ھے“۔[74]
یعنی تم لوگ اس وقت اس بیابان میں خود سازی اور امتحان کی منزل میں هو،یھاں مختلف کھانے نھیں مل سکتے ،جاوٴ شھر میں جاوٴ تاکہ یہ چیزیں تمھیں مل جائیں ،لیکن یہ خود سازی کا پروگرام وھاں نھیں ھے۔
اس کے بعد قرآن مزید کہتا ھے کہ خدا نے ان کی پیشانی پر ذلت و فقر کی مھر لگادیااور وہ دوبارہ غضب الٰھی میں گرفتار هوگئے ۔
یہ اس لئے هوا کہ وہ آیات الٰھی کا انکار کرتے تھے اور ناحق انبیاء کو قتل کرتے تھے ۔ یہ سب اس لئے تھا کہ وہ گناہ،سرکشی اور تجاوز کے مرتکب هوتے تھے۔[75]
قرآن میں بنی اسرائیل کی زندگی کا ایک اور منظر بیان کیا گیا ھے۔ ایک مرتبہ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنی قوم سے جھگڑنا پڑا ھے،حضرت موسیٰ علیہ السلام کا خدا کے مقامِ وعدہ پر جانا،وحی کے ذریعے احکام توریت لینا،خدا سے باتیں کرنا،کچھ بزرگان بنی اسرائیل کو میعاد گاہ میں ان واقعات کے مشاہدہ کے لئے لانا،اس بات کا اظھار ھے کہ خدا کو ان آنکھوں سے ھر گز نھیں دیکھا جاسکتا۔
پھلے فرمایا گیا ھے:”ھم نے موسیٰ سے تیس راتوں (پورے ایک مھینہ)کا وعدہ کیا،اس کے بعد مزید دس راتیں بڑھا کر اس وعدہ کی تکمیل کی، چنانچہ موسیٰ سے خدا کا وعدہ چالیس راتوں میں پورا هوا“۔[76]
اس کے بعد اس طرح بیان کیا گیا ھے:”موسیٰ نے اپنے بھائی ھارون سے کھا:میری قوم میں تم میرے جانشین بن جاؤ اور ان کی اصلاح کی کوشش کرو اور کبھی مفسدوں کی پیروی نہ کرنا“۔[77] ،[78]
قرآن میں بنی اسرائیل کی زندگی کے بعض دیگر مناظر پیش کئے گئے ھیں۔ان میں سے ایک یہ ھے کہ بنی اسرائیل کے ایک گروہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بڑے اصرار کے ساتھ یہ خواہش کی کہ وہ خدا کو دیکھیں گے۔ اگر ان کی یہ خواہش پوری نہ هوئی تو وہ ھر گز ایمان نہ لائیں گے۔
چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کے ستر آدمیوں کا انتخاب کیا اور انھیں اپنے ھمراہ پروردگار کی میعادگاہ کی طرف لے گئے، وھاں پہنچ کر ان لوگوں کی درخواست کو خدا کی بارگاہ میں پیش کیا۔ خدا کی طرف سے اس کا ایسا جواب ملا جس سے بنی اسرائیل کے لئے یہ بات اچھی طرح سے واضح هوگئی۔
ارشاد هوتا ھے:” جس وقت موسیٰ ھماری میعادگاہ میں آئے اور ان کے پروردگار نے ان سے باتیں کیں تو انهوں نے کھا:اے پروردگار خود کو مجھے دکھلادے تاکہ میں تجھے دیکھ لوں“۔[79]
لیکن موسیٰ علیہ السلام نے فوراًخدا کی طرف سے یہ جواب سنا: تم ہز گز مجھے نھیں دیکھ سکتے ۔
لیکن پھاڑ کی حانب نظر کرو اگر وہ اپنی جگہ پر ٹھھرا رھا تب مجھے دیکھ سکو گے۔
جس وقت خدا نے پھاڑ پر جلوہ کیا تو اسے فنا کردیا اور اسے زمین کے برابر کردیا۔
موسیٰ علیہ السلام نے جب یہ هولناک منظر دیکھا تو ایسا اضطراب لاحق هوا کہ بے هوش هو کر زمین پر گرپڑے۔اور جب هوش میں آئے تو خدا کی بارگاہ میں عرض کی پروردگارا!تو منزہ ھے،میں تیری طرف پلٹتا هوں،اور توبہ کرتا هوں اور میں پھلا هوں مومنین میںسے۔[80]
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے رویت کی خواہش کیو ں کی؟
حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے اولوالعزم نبی کو اچھی طرح معلوم تھا کہ ذات خداوندی قابل دید نھیں ھے کیونکہ نہ تو وہ جسم ھے،نہ اس کے لئے کوئی مکان و جہت ھے اس کے باوجود انهوں نے ایسی خواہش کیسے کردی جو فی الحقیقت ایک عام انسان کی شان کے لئے بھی مناسب نھیں ھے؟
سب سے واضح جواب یہ ھے کہ جضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ خواہش در اصل اپنی قوم کی طرف سے کی تھی کیونکہ بنی اسرائیل کے جھلاء کے ایک گروہ کا یہ اصرار تھا کہ وہ خدا کو کھلم کھلا دیکھیں گے تب ایمان لائیں گے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ کی جانب سے یہ حکم ملا کہ وہ اس درخواست کو خدا کی بارگاہ میں پیش کریں تا کہ سب اس کا جواب سن لیں،کتاب عیون اخبار الرضا میں امام رضا علیہ السلام سے جو حدیث مروی ھے وہ بھی اس مطلب کی تائید کرتی ھے۔[81]
آخر کار اس عظیم میعادگاہ میں اللہ نے موسیٰ علیہ السلام پر اپنی شریعت کے قوانین نازل فرمائے۔پھلے ان سے فرمایا:”اے موسیٰ!میںنے تمھیں لوگوں پر منتخب کیا ھے،اور تم کو اپنی رسالتیں دی ھیں،اور تم کو اپنے ساتھ گفتگو کا شرف عطا کیا ھے“۔[82]
اب جبکہ ایسا ھے تو”جو میں نے تم کو حکم دیا ھے اسے لے لو اور ھمارے اس عطیہ پر شکر کرنے والوں میں سے هوجاؤ“۔[83]
اس کے بعد اضافہ کیا گیا ھے کہ :ھم نے جو الواح موسیٰ علیہ السلام پر نازل کی تھیں ان پر ھر موضوع کے بارے میں کافی نصیحتیں تھیں اورضرورت کے مسائل کی شرح اور بیان تھا۔
اس کے بعد ھم نے موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ”بڑی توجہ اور قوت ارادی کے ساتھ ان فرامین کو اختیار کرو۔“[84]اور اپنی قوم کو بھی حکم دو کہ ان میں جو بہترین ھیںانھیں اختیار کریں۔
اور انھیں خبردار کردوکہ ان فرامین کی مخالفت اور ان کی اطاعت سے فرار کرنے کا نتیجہ دردناک ھے اوراس کا انجام دوزخ ھے اور ”میں جلد ھی فاسقوں کی جگہ تمھیں دکھلادوںگا۔“[85]
[86]۱۔الواح کس چیز کی بنی هوئی تھیں:اس آیت کا ظاھر یہ ھے کہ خداوند کریم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر جو الواح نازل کی تھیں ان میں توریت کی شریعت اور قوانین لکھے هوئے تھے ،ایسا نہ تھا کہ یہ لوحیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ھاتھ میں تھیں اور اس میں فرامین منعکس هوگئے تھے۔ اب رھا یہ سوال کہ یہ لوحیں کیسی تھیں؟کس چیز کی بنی هوئی تھیں؟ قرآن نے اس بات کی کوئی وضاحت نھیں کی ھے صرف کلمہ”الواح“ سربستہ طور پر آیا ھے۔جو در اصل”لاح یلوح“کے مادہ سے ماخوذ ھے جس کے معنی ظاھر هونے اور چمکنے کے ھیں۔چونکہ صفحہ کے ایک طرف لکھنے سے حروف نمایاں هوجاتے ھیںاور مطلب آشکار هوجاتے ھیں،اس لئے صفحہ کو جس پر کچھ لکھا جائے”لوح“کہتے ھیں۔لیکن روایات و اقوال مفسرین میں ان الواح کی کیفیت کے بارے میں اور ان کی جنس کے بارے میں گوناگوں احتمالات ذکر کئے گئے ھیں۔ چونکہ ان میں سے کوئی بھی یقینی نھیں ھے اس لئے ان کے ذکر سے ھم اعراض کرتے ھیں۔
۲۔کلام کیسے هوا:قرآن کریم کی مختلف آیات سے استفادہ هوتا ھے کہ خداوندمتعال نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا،خدا کا موسیٰ علیہ السلام سے کلام کرنا اس طرح تھا کہ اس نے صوتی امواج کو فضا میں یا کسی جسم میں پیدا کردیا تھا۔ کبھی یہ امواج صوتی”شجرہٴ وادی ایمن “سے ظاھر هوتی تھیں اور کبھی”کوہِ طور“ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کان میں پہنچتی تھیں۔ جن لوگوں نے صرف الفاظ پر نظر کی ھے اور اس پر غور نھیںکیا کہ یہ الفاظ کھاں سے نکل سکتے ھیں انهوں نے یہ خیال کیا کہ خدا کا کلام کرنا اس کے تجسم کی دلیل ھے۔حالانکہ یہ خیال بالکل بے بنیاد ھے۔
قرآن میں افسوسناک اور تعجب خیز واقعات میں سے ایک واقعہ کا ذکر هوا ھے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے میقات کی طرف جانے کے بعد بنی اسرائیل میں رونما هوا۔وہ واقعہ ان لوگوں کی گوسالہ پرستی ھے۔ جو ایک شخص بنام”سامری“نے زیور و آلاتِ بنی اسرائیل کے ذریعے شروع کیا۔
سامری کو چونکہ اس بات کا احساس تھاکہ قوم موسیٰ علیہ السلام عرصہٴ دراز محرومی اور مظلومی کی زندگی بسر کررھی تھی اس وجہ سے اس میں ماد ہ پرستی پائی جاتی تھی اور حب زر کا جذبہ بدرجہ اتم پایا جاتا تھا۔ جیسا کہ آج بھی ان کی یھی صفت ھے لہٰذا اس نے یہ چالاکی کی کہ وہ مجسمہ سونے کا بنایاکہ اس طرح ان کی تو جہ زیادہ سے زیادہ اس کی طرف مبذول کراسکے۔
اب رھا یہ سوال کہ اس محروم و فقیر ملت کے پاس اس روز اتنی مقدارمیں زروزیور کھاں سے آگیا کہ اس سے یہ مجسمہ تیار هوگیا؟اس کا جواب روایات میں اس طرح ملتا ھے کہ بنی اسرائیل کی عورتوں نے ایک تهوار کے موقع پر فرعونیوں سے زیورات مستعار لئے تھے یہ اسوقت کی بات ھے جس کے بعد ان کی غرقابی عمل میں آئی تھی۔اس کے بعد وہ زیورات ان عورتوں کے پاس باقی رہ گئے تھے۔
اتنا ضرور ھے کہ یہ حادثہ مثل دیگر اجتماعی حوادث کے بغیر کسی آمادگی اور مقدمہ کے وقوع پذیز نھیں هوا بلکہ اس میں متعدد اسباب کار فرما تھے،جن میں سے بعض یہ ھیں:
بنی اسرائیل عرصہ دراز سے اھل مصر کی بت پرستی دیکھتے آرھے تھے۔
جب دریائے نیل کو عبور کیا تو انهوں نے ایک قوم کو دیکھا جو بت کی پرستش کرتی تھی۔ جیسا کہ قرآن نے بھی اس کا ذکر کیا ھے اور گذشتہ میں بھی اس کا ذکر گزرا کہ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ان کی طرح کا بت بنانے کی فرمائش کی جس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے انھیں سخت سرزنش کی۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے میقات کاپھلے تیس راتوں کا هونا اس کے بعد چالیس راتوں کا هوجانا اس سے بعض منافقوں کو یہ موقع ملاکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفا ت کی افواہ پھیلا دیں۔
قوم موسیٰ علیہ السلام میں بہت سے افرادکا جھل و نادانی سے متصف هونا اس کے مقابلے میں سامری کی مکاری و مھارت کیونکہ اس نے بڑی هوشیاری سے بت پرستی کے پروگرام کو عملی جامہ پہنایا، بھر حال ان تمام باتوں نے اکٹھا هوکر اس بات کے اسباب پیدا کئے کہ بنی اسرائیل کی اکثریت بت پرستی کو قبول کرے اور”گوسالہ“کے چاروں طرف اس کے ماننے والے ہنگامہ برپاکردیں۔
سب سے بڑھ کرعجیب بات یہ ھے کہ بعض مفسرین نے یہ بیان کیا ھے کہ بنی اسرائیل میں یہ انحرافی تبدیلیاں صرف گنتی کے چند دنوں کے اندر واقع هوگئیں جب موسیٰ علیہ السلام کو میعاد گاہ کی طرف گئے هوئے ۳۵/دن گزر گئے تو سامری نے اپنا کام شروع کردیا اور بنی اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ تمام زیورات جو انهوں نے فرعونیوں سے عاریتاًلئے تھے اور ان کے غرق هوجانے کے بعد وہ انھیں کے پاس رہ گئے تھے انھیں جمع کریں چھتیسویں ، سنتیسویں اور اڑ تیسویں دن انھیں ایک کٹھائی میں ڈالااور پگھلاکر اس سے گوسالہ کا مجسمہ بنا دیا اور انتالیسویں دن انھیں اس کی پرستش کی دعوت دی اور ایک بہت بڑی تعداد (کچھ روایات کی بناء پر چھ لاکھ افراد) نے اسے قبول کرلیااور ایک روز بعد یعنی چالیس روز گزرنے پر موسیٰ علیہ السلام واپس آگئے ۔
قرآن اس طرح فرماتا ھے:
”قومِ موسیٰ نے موسیٰ کے میقات کی طرف جانے کے بعد اپنے زیوارات وآلات سے ایک گوسالہ بنایا جو ایک بے جان جسد تھا جس میں سے گائے کی آواز آتی تھی۔ [87]
اسے انهوں نے اپنے واسطے انتخاب کیا “
اگرچہ یہ عمل سامری سے سرزد هوا تھا۔[88]
لیکن اس کی نسبت قوم موسیٰ کی طرف دی گئی ھے اس کی وجہ یہ ھے کہ ان میں سے بہت سے لوگوں نے اس کام میں سامری کی مدد کی تھی اور وہ اس کے شریک جرم تھے اس کے علاوہ ان لوگوں کی بڑی تعداد اس کے فعل پر راضی تھی ۔
قرآنی گفتگو کاظاھر یہ ھے کہ تمام قوم موسیٰ اس گوسالہ پرستی میں شریک تھی لیکن اگردوسری آیت پر نظر کی جائے جس میں آیا ھے کہ :
”قوم موسی میں ایک امت تھی جو لوگوں کو حق کی ہدایت کرتی تھی اور اسی کی طرف متوجہ تھی“۔[89]
اس سے معلوم هوگا کہ اس سے مراد تمام امت موسیٰ نھیں ھے بلکہ اس کی اکثریت اس گوسالہ پرستی کی تابع هوگئی تھی، جیسا کہ آئندہ آنے والا ھے کہ وہ اکثریت اتنی زیادہ تھی کہ حضرت ھارون علیہ السلام مع اپنے ساتھیوں کے ان کے مقالے میں ضعیف وناتواں هوگئے تھے ۔
یھاں پر قرآن میں اس کشمکش اور نزاع کا ماجرا بیان کیا گیا ھے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام اور گوسالہ پرستوںکے درمیان واقع هوئی جب وہ میعادگاہ سے واپس هوئے جس کی طرف گذشتہ میں صرف اشارہ کیا گیا تھا یھاں پر تفصیل کے ساتھ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس رد عمل کو بیان کیا گیا ھے جو اس گروہ کے بیدار کرنے کے لئے ان سے ظاھر هوا ۔
پھلے ارشاد هوتا :” جس وقت موسیٰ غضبناک ورنجیدہ اپنی قوم کی طرف پلٹے اور گوسالہ پرستی کانفرت انگیز منظر دیکھا تو ان سے کھا کہ تم لوگ میرے بعد برے جانشین نکلے تم نے میرا آئین ضائع کردیا “۔[90]
یھاں سے صاف معلوم هوتا ھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام میعاد گاہ پروردگار سے پلٹتے وقت قبل اس کے کہ بنی اسرائیل سے ملتے، غضبناک اور اندو ہگین تھے، اس کی وجہ یہ تھی کہ خدا نے میعادگاہ میں انھیں اس کی خبردے دی تھی ۔
جیسا کہ قرآن کہتا ھے :میں نے تمھارے پیچھے تمھاری قوم کی آزمائش کی لیکن وہ اس آزمائش میں پوری نہ اتری اور سامری نے انھیں گمراہ کر دیا۔
اس کے بعد موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کھا:” آیا تم نے اپنے پروردگار کے فرمان کے بارے میں جلدی کی “۔[91]
تم نے خدا کے اس فرمان، کہ اس نے میعاد کا وقت تیس شب سے چالیس شب کردیا ، جلدی کی اور جلد فیصلہ کردیا ، میرے نہ آنے کو میرے مرنے یا وعدہ خلافی کی دلیل سمجھ لیا، حالانکہ لازم تھا کہ تھوڑا صبر سے کام لیتے ، چند روز اور انتظار کرلیتے تاکہ حقیقت واضح هوجاتی ۔
اس وقت جبکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کی زندگی کے ان طوفانی وبحرانی لمحات سے گزر رھے تھے، سرسے پیرتک غصہ اور افسوس کی شدت سے بھڑک رھے تھے ،ایک عظیم اندوہ نے ان کے وجود پر سایہ ڈال دیا تھا اور انھیں بنی اسرائیل کے مستقبل کے بارے میں بڑی تشویش لاحق تھی، کیونکہ تخریب اور تباہ کاری آسانی سے هوجاتی ھے کبھی صرف ایک انسان کے ذریعے بہت بڑی خرابی اور تباھی واقع هوجاتی ھے لیکن اصلاح اور تعمیر میں دیر لگتی ھے ۔
خاص طور پر جب کسی نادان متعصب اورہٹ دھر م قوم کے درمیان کوئی غلط سازبجادیا جائے تو اس کے بعد اس کے برے اثرات کا زائل کرنا بہت مشکل هوتا ھے۔
اس موقع پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو غصہ کرنا چاہئے تھا اور ایک شدید ردّ عمل ظاھر کر ناچا ہئے تھا تاکہ بنی اسرائیل کے فاسد افکار کی بنیاد گر اکر اس منحرف قوم میں انقلاب برپا کردیں ،ورنہ تو اس قوم کو پلٹانا مشکل تھا۔
قرآن نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا وہ شدید ردّ عمل بیان کیا ھے جو اس طوفانی و بحرانی منظرکو دیکھنے کے بعد ان سے ظاھر هوا ،موسیٰ علیہ السلام نے بے اختیار نہ طور پر اپنے ھاتھ سے توریت کی الواح کو زمین پر ڈال دیا اور اپنے بھائی ھارون علیہ السلام کے پاس گئے اور ان کے سر اور داڑھی کے بالوں کو پکڑکر اپنی طرف کھینچا“[92]
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کے علاوہ ھارون علیہ السلام کو بڑی شدت سے سرزنش کی اور بآواز بلند چیخ کرپکارے:
کیا تم نے بنی اسرائیل کے عقائدکی حفاظت میں کوتاھی کی اور میرے فرمان کی مخالفت کی ؟“[93]
درحقیقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کا یہ ردّ عمل ایک طرف تو ان کی اس واردات قلبی، بے قراری اور شدید ناراضی کی حکایت کرتا ھے تاکہ بنی اسرائیل کی عقل میں ایک حرکت پیدا هو اور وہ اپنے اس عمل کی قباحت کی طرف متوجہ هوجائیں ۔
بنابریں اگرچہ بالفرض الواح توریت کا پھینک دینا قابل اعتراض معلوم هوتا هو، اور بھائی کی شدید سرنش نادرست هو لیکن اگرحقیقت کی طرف توجہ کی جائے کہ اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام اس شدید اور پرھیجانی ردّ عمل کا اظھار نہ کرتے تو ھر گز بنی اسرائیل اپنی غلطی کی سنگینی اور اھمیت کا اندازہ نھیں کرسکتے تھے ،ممکن تھا کہ اس بت پرستی کے آثاربدان کے ذہنوں میں باقی رہ جاتے لہٰذا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جو کچھ کیا وہ نہ صرف غلط نہ تھا بلکہ امر لازم تھا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اس واقعہ سے اس قدر ناراض هوئے کہ تاریخ بنی اسرائیل میں کبھی اس قدر ناراض نہ هوئے تھے کیونکہ ان کے سامنے بدترین منظر تھا یعنی بنی اسرائیل خدا پرستی کو چھوڑ کر گوسالہ پرستی اختیار کرچکے تھے جس کی وجہ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وہ تمام زحمتیں جو انهوں نے بنی اسرائیل کی ہدایت کے لئے کی تھیں سب برباد هورھی تھیں ۔
لہٰذا ایسے موقع پر الواح کا ھاتھوں سے گرجانا اور بھائی سے سخت مواخذہ کرنا ایک طبعی امر تھا۔
اے میری ماں کے بیٹے! میں بے گناہ هوں
اس شدید رد عمل اور غیظ وغضب کے اظھارنے بنی اسرائیل پر بہت زیادہ تربیتی اثر مرتب کیا اور منظر کو بالکل پلٹ دیا جبکہ اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام نرم زبان استعمال کرتے تو شاید اس کا تھوڑا سا اثر بھی مرتب نہ هوتا ۔
اس کے بعد قرآن کہتا ھے : ھارون علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام کی محبت کو برانگیختہ کرنے کے لئے اور اپنی بے گناھی بیان کرنے کے لئے کھا:
”اے میرے ماں جائے:اس نادان امت کے باعث ھم اس قدر قلیل هوگئے کہ نزدیک تھا کہ مجھے قتل کردیں لہٰذا میں بالکل بے گناہ هوں لہٰذا آپ کوئی ایسا کام نہ کریں کہ دشمن ہنسی اڑائیں اور مجھے اس ستمگر امت کی صف میں قرار نہ دیں “۔[94]
قرآن میں جو ” ابن ام“ کی تعبیر آئی ھے جس کے معنی (اے میری ماں کے بیٹے،کے ھیں )حالانکہ موسیٰ علیہ السلام اورھارون علیہ السلام دونوں ایک والدین کی اولاد تھے یہ اس لئے تھا کہ حضرت ھارون چاہتے تھے کہ حضرت موسیٰ کا جذبہٴ محبت بیدار کریں بھر حال حضرت موسیٰ علیہ السلام کی یہ تدبیر کار آمد هوئی اور بنی اسرائیل کو اپنی غلطی کا احساس هوا اور انهوں نے توبہ کی خواہش کا اظھار کیا ۔“
اب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی آتش غضب کم هوئی اور وہ درگاہ خداواندی کی طرف متوجہ هوئے اور عرض کی :
”پروردگارا! مجھے اور میرے بھائی کو بخش دے اور ھمیں اپنی رحمت بے پایاں میں داخل کردے، تو تمام مھربانوں سے زیادہ مھربان ھے“۔ [95]
اپنے لئے اور اپنے بھائی کے لئے بخشش طلب کرنا اس بناپر نھیں تھا کہ ان سے کوئی گناہ سرزد هوا تھا بلکہ یہ پروردگار کی بارگاہ میں ایک طرح کا خضوع وخشوع تھا اور اس کی طرف بازگشت تھی اور بت پرستوں کے اعمال زشت سے اظھار تنفر تھا ۔[96]
سامری جو کہ ایک صاحب فن انسان تھا اس نے اپنی معلومات سے کام لے کر طلائی گوسالہ کے سینے میں کچھ مخصوص نل (PIPE) اس طرح مخفی کردیئے جن کے اندر سے دباؤ کی وجہ سے جب هوا نکلتی تھی تو گائے کی آواز آتی تھی ۔
کچھ کاخیال ھے کہ گوسالہ کا منہ اس طرح کا پیچیدہ بنایا گیا تھا کہ جب اسے هوا کے رخ پررکھا جاتاھے تھا تو اس کے منہ سے یہ آوازنکلتی تھی۔
قرآن میں پڑھتے ھیں کہ جناب موسیٰ نے سامری سے بازپرس شروع کی اور کھا :”یہ کیا کام تھا کہ جوتونے انجام دیا ھے اور اے سامری : تجھے کس چیزنے اس بات پر آمادہ کیا۔
اس نے جواب میں کھا :”میں کچھ ایسے مطالب سے آگاہ هوا کہ جو انهوں نے نھیں دیکھے اور وہ اس سے آگاہ نھیں هوئے “۔
میں نے ایک چیزخدا کے بھیجے هوئے رسول کے آثار میں سے لی اور پھر میں نے اسے دور پھینک دیا اور میرے نفس نے اس بات کو اسی طرح مجھے خوش نما کرکے دکھایا“[97]
اس بارے میں کہ اس گفتگو سے سامری کی کیا مراد تھی، مفسرین کے درمیان دوتفسیریں مشهور ھیں : پھلی یہ کہ اس کا مقصد یہ تھا کہ فرعون کے لشکر کے دریائے نیل کے پاس آنے کے موقع پر میں نے جبرئیل کو ایک سواری پر سوار دیکھا کہ وہ لشکر کو دریا کے خشک شدہ راستوں پر ورود کےلئے تشویق دینے کی خاطران کے آگے آگے چل رھاتھا میں نے کچھ مٹی ان کے پاؤں کے نیچے سے یاان کی سواری کے پاؤں کے نیچے سے اٹھالی اور اسے سنبھال کر رکھا اور اسے سونے کے بچھڑے کے اندارڈالا اور یہ صدا اسی کی برکت سے پیدا هوئی ھے۔
دوسری تفسیر یہ ھے کہ میں ابتداء میں میں خدا کے اس رسول (موسیٰ)کے کچھ آثار پر ایمان لے آیا اس کے بعد مجھے اس میں کچھ شک اور تردد هوا لہٰذا میں نے اسے دور پھینک دیا اور بت پرستی کے دین کی طرف مائل هوگیا اور یہ میری نظر میں زیادہ پسندیدہ اورزیبا ھے ۔!!
یہ بات صاف طور پر واضح اور روشن ھے کہ موسیٰ کے سوال کے جواب میں سامری کی بات کسی طرح بھی قابل قبول نھیں تھی،لہٰذا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کے مجرم هونے کا فرمان اسی عدالت میں صادر کر دیا اور اسے اس گوسالہ پرستی کے بارے میں تین حکم دیئے۔
پھلا حکم یہ کہ اس سے کھا” تو لوگوں کے درمیان سے نکل جا اور کسی کے ساتھ میل ملاپ نہ کر اور تیری باقی زندگی میں تیرا حصہ صرف اتنا ھے کہ جو شخص بھی تیرے قریب آئے گا تو اس سے کھے گا ” مجھ سے مس نہ هو“ ۔[98]
اس طرح ایک قاطع اور دوٹوک فرمان کے ذریعے سامری کو معاشرے سے باھر نکال پھینکا اور اسے مطلق گوشہ نشینی میں ڈال دیا ۔
بعض مفسرین نے کھا ھے کہ ” مجھ سے مس نہ هو“ کا جملہ شریعت موسیٰ علیہ السلام کے ایک فوجداری قانون کی طرف اشارہ ھے کہ جو بعض ایسے افراد کے بارے میں کہ جو سنگین جرم کے مرتکب هوتے تھے صادر هوتا تھا وہ شخص ایک ایسے موجود کی حیثیت سے کہ جو پلید ونجس وناپاک هو، قرار پاجاتا تھا کوئی اس سے میل ملاپ نہ کرے اور نہ اسے یہ حق هوتا تھا وہ کسی سے میل ملاپ رکھے ۔
سامری اس واقعے کے بعد مجبور هوگیا کہ وہ بنی اسرائیل اور ان کے شھر ودیار سے باھر نکل جائے اور بیابانوں میں جارھے اور یہ اس جاہ طلب انسان کی سزا ھے کہ جو اپنی بدعتوں کے ذریعے چاہتا تھا کہ بڑے بڑے گروهوں کو منحرف کرکے اپنے گرد جمع کرے، اسے نا کام ھی هونا چاہئے یھاں تک کہ ایک بھی شخص اس سے میل ملاپ نہ رکھے اور اس قسم کے انسان کےلئے یہ مکمل بائیکاٹ موت اور قتل هونے سے بھی زیادہ سخت ھے کیونکہ وہ ایک پلید اور آلودہ وجود کی صورت میں ھر جگہ سے راندہ اور دھتکارا هوا هوتا ھے ۔
بعض مفسرین نے یہ بھی کھا ھے کہ سامری کا بڑا جرم ثابت هوجانے کے بعد حضرت موسیٰ نے اس کے بارے میں نفرین کی اور خدا نے اسے ایک پر اسرار بیماری میں مبتلا کردیا کہ جب تک وہ زندہ رھا کوئی شخص اسے چھو نھیں سکتا تھا اور اگر کوئی اسے چھولیتا تو وہ بھی بیماری میں گرفتار هوجاتا ۔یایہ کہ سامری ایک قسم کی نفسیاتی بیماری میں جو ھر شخص سے وسواس شدید اور وحشت کی صورت میں تھی ؛گرفتار هوگیا، اس طرح سے کہ جو شخص بھی اس کے نزدیک هوتا وہ چلاتا کہ” مجھے مت چھونا“۔سامری کے لئے دوسری سزا یہ تھی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اسے قیامت میں هونے والے عذاب کی بھی خبردی اور کھا تیرے آگے ایک وعدہ گاہ ھے، خدائی دردناک عذاب کا وعدہ کہ جس سے ھرگز نھیں بچ سکے گا “[99]
تیسرا کام یہ تھا کہ جو موسیٰ علیہ السلام نے سامری سے کھا: ” اپنے اس معبود کو کہ جس کی تو ھمیشہ عبادت کرتا تھا ذرا دیکھ اور نگاہ کر ھم اس کو جلا رھے ھیں اور پھر اس کے ذرات کو دریا میں بکھیردیں گے “(تاکہ ھمیشہ کے لئے نابود هوجائے[100][101]
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس شدید رد عمل نے اپنا اثر دکھایا او جن لوگوں نے گوسالہ پر ستی اختیار کی تھی اور ان کی تعداد اکثریت میں تھی وہ اپنے کام سے پشیمان هوئے ان کی شاید مذکورہ پشیمانی کافی تھی، قرآن نے یہ اضافہ کیا ھے :باقی رہتا ھے یہ سوال کہ اس ” غضب “ اور ذلت “ سے کیا مراد ھے؟ قرآن نے اس امر کی کوئی توضیح نھیں کی ھے صرف سربستہ کہہ کر بات آگے بڑھادی ھے۔
لیکن ممکن ھے اس سے ان بد بختیوں اور پریشانیوں کی جانب اشارہ مقصود هوجو اس ماجرے کے بعد اور بیت المقدس میں ان کی حکومت سے پھلے انھیں پیش آئیں ۔
یا اس سے مراد اللہ کا وہ حکم هو جو اس گناہ کے بعد انھیں دیا گیا کہ وہ بطور پاداش ایک دوسرے کو قتل کریں ۔
قرآن اس کے بعد اس گناہ سے توبہ کے سلسلے میں کہتا ھے:”اور یاد کرو اس وقت کو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کھا :اے قوم !تم نے بچھڑے کو منتخب کر کے اپنے اوپر ظلم کیا ھے ،اب جو ایسا هوگیا ھے تو توبہ کرو اور اپنے پیدا کرنے والے کی طرف پلٹ آؤ“۔
”تمھاری توبہ اس طرح هونی چاھیئے کہ تم ایک دوسرے کو قتل کرو۔یہ کام تمھارے لئے تمھارے خالق کی بارگاہ میں بہتر ھے۔اس ماجرے کے بعد خدا نے تمھاری توبہ قبول کرلی جو تواب و ررحیم ھے“۔[102]
اس میں شک نھیں کہ سامری کے بچھڑے کی پرستش و عبادت کوئی معمولی بات نہ تھی وہ قوم جو خدا کی یہ تمام آیات دیکھ چکی تھی اور اپنے عظیم پیغمبر کے معجزات کا مشاہدہ کرچکی تھی ان سب کو بھول کر پیغمبر کی ایک مختصر سی غیبت میں اصل توحید اور آئین خداوندی کو پورے طور پر پاؤں تلے رونددے اور بت پرست هوجائے۔
اب اگر یہ بات ان کے دماغ سے ھمیشہ کے لئے جڑ سے نہ نکالی جاتی تو خطرناک حالت پیدا هونے کا اندیشہ تھا اور ھر موقعے کے بعدا ور خصوصاًحضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی کے بعد ممکن تھا ان کی دعوت کی تمام آیات ختم کردی جاتیں اور اس عظیم قوم کی تقدیر مکمل طور پر خطرے سے دوچار هوجاتی۔
یھاں شدت عمل سے کام لیا گیا اور صرف پشیمانی اور زبان سے اظھار توبہ پر ھرگز قناعت نہ کی گئی۔یھی وجہ ھے کہ خدا کی طرف سے ایسا سخت حکم صادر هواجس کی مثال تمام انبیاء کی طویل تاریخ میں کھیں نھیں ملتی اور وہ یہ کہ توبہ اور توحید کی طرف باز گشت کے سلسلے میںگناہگاروں کے کثیر گروہ کے لئے اکٹھا قتل کرنے کا حکم دیا گیا۔یہ فرمان بھی ایک خاص طریقے سے جاری هونا چاہئیے تھا اور وہ یہ هوا کہ وہ لوگ خود تلواریں ھاتھ میں لے کر ایک دوسرے کو قتل کریں کہ ایک اس کا اپنا مارا جانا عذاب ھے اور دوسرا دوستوں اور شناساؤں کا قتل کرنا۔
بعض روایات کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حکم دیا کہ ایک تاریک رات میں وہ تمام لوگ جنهوں نے بچھڑے کی عبادت کی تھی غسل کریں کفن پہن لیں اور صفیںباندھ کر ایک دوسرے پرتلوار چلائیں۔
ممکن ھے یہ تصور کیا جائے کہ یہ توبہ کیوں اتنی سختی سے انجام پذیر هوئی کیا یہ ممکن نہ تھاکہ خدا ان کی توبہ کو بغیر اس خونریزی کے قبول کرلیتا۔
اس سوال کا جواب گذشتہ گفتگو سے واضح هوجاتا ھے کیونکہ اصل توحید سے انحراف اوربت پرستی کی طرف جھکاؤ کا مسئلہ اتنا سادہ اور آسان نہ تھا کہ اتنی آسانی سے درگذر کردیا جاتا اور وہ بھی ان واضح معجزات اور خدا کی بڑی بڑی نعمتوں کے مشاہدے کے بعد ۔ در حقیقت ادیان آسمانی کے تمام اصولوں کو توحید اور یگانہ پرستی میں جمع کیا جاسکتا ھے۔اس اصل کا متزلزل هونا دین کی تمام بنیادوں کے خاتمے کے برابر ھے اگر گاؤ پرستی کے مسئلے کو آسان سمجھ لیا جاتا تو شاید آنے والے لوگوں کے لئے سنت بن جاتا۔
خصوصاً بنی اسرائیل کے لئے جن کے بارے میں تاریخ شاہد ھے کہ ضدی اور بھانہ باز لوگ تھے۔ لہٰذا چاہئے تھا کہ ان کی ایسی گوشمالی کی جائے کہ اس کی چبھن تمام صدیوں اور زمانوں تک باقی رہ جائے اور اس کے بعد کوئی شخص بت پرستی کی فکر میں نہ پڑے۔
عظیم اسلامی مفسر مرحوم طبرسیۺ،ابن زید کا قول اس طرح نقل کرتے ھیں:جس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہ طور سے واپس آئے اور اپنے ساتھ توریت لائے تو اپنی قوم کو بتایا کہ میں آسمانی کتاب لے کر آیا هوں جو دینی احکام اور حلال و حرام پر مشتمل ھے۔ یہ وہ احکام ھیں جنھیں خدا نے تمھارے لئے عملی پروگرام قرار دیا ھے۔اسے لے کر اس کے احکام پر عمل کرو۔ اس بھانے سے کہ یہ ان کے لے مشکل احکام ھیں،یهودی نافرمانی اور سرکشی پر تل گئے۔ خدا نے بھی فرشتوں کو مامور کیا کہ وہ کوہ طور کا ایک بہت بڑا ٹکڑا ان کے سروں پر لاکر کھڑا کردیں،اسی اثناء میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے انھیں خبردی کہ عہد وپیمان باندھ لو،احکام خداپر عمل کرو،سرکشی و بغاوت سے توبہ کرو تو تم سے یہ عذاب ٹل جائے گا ورنہ سب ھلاک هو جاؤگے۔
اس پر انهوں نے سر تسلیم خم کردیا۔ توریت کو قبول کیا اور خدا کے حضور میں سجدہ کیا۔جب کہ ھر لحظہ وہ کوہ طور کے اپنے سروں پر گرنے کے منتظر تھے لیکن بالآخر ان کی توبہ کی وجہ سے عذاب الٰھی ٹل گیا۔
یہ نکتہ یاد رکھناضروری ھے کہ کوہ طور کے بنی اسرائیل کے سروں پر مسلط هونے کی کیفیت کے سلسلے میںمفسرین کی ایک جماعت کا اعتقاد ھے کہ حکم خدا سے کوہ طور اپنی جگہ سے اکھڑ گیا اور سائبان کی طرح ان کے سروں پر مسلط هوگیا۔
جبکہ بعض دوسرے مفسرین یہ کہتے ھیں کہ پھاڑمیں سخت قسم کا زلزلہ آیا، پھار اس طرح لرزنے اور حرکت کرنے لگا کہ کسی بھی وقت وہ ان کے سروں پر آگرے گا لیکن خدا کے لطف و کرم سے زلزلہ رک گیا اور پھاڑ اپنی جگہ پر قائم هوگیا۔
یہ احتمال بھی هو سکتا ھے کہ پھاڑ کا ایک بہت بڑا ٹکڑا زلزلے اور شدید بجلی کے زیر اثر اپنی جگہ سے اکھڑ کر ان کے سروں کے اوپر سے بحکم خدا اس طرح گزرا هو کہ چند لحظے انهوں نے اسے اپنے سروں پر دیکھا هو اور یہ خیال کیا هو کہ وہ ان پر گرناچاہتا ھے لیکن یہ عذاب ان سے ٹل گیا اور وہ ٹکڑا کھیں دور جاگرا۔[103]
آیئے ۔واقعہ کی تفصیل قرآن میں پڑھتے ھیںکہ:”اور (وہ وقت کہ)جب ھم نے تم سے عہد لیا اور کوہ طور کو تمھارے سروں کے اوپر مسلط کردیا اور تمھیں کھا کہ،جو کچھ (آیات و احکام میں )ھم نے تمھیں دیا ھے اسے مضبوطی سے تھامو اور جو کچھ اس میں ھے اسے یاد رکھو (اور اس پر عمل کرو)شاید اس طرح تم پرھیزگار هوجاؤ“۔[104]
اس کے بعد پھر تم نے روگردانی کی اور اگر تم پر خدا کا فضل و رحمت نہ هوتا تو تم نقصان اٹھانے والوں میں سے هوتے“۔[105]
اس عہد و پیمان میں یہ چیزیں شامل تھیں:پروردگار کی توحید پر ایمان رکھنا،ماں باپ، عزیز و اقارب،یتیم اور حاجتمندو ں سے نیکی کرنا اور خونریزی سے پرھیز کرنا۔ یہ کلی طور پر ان صحیح عقائد اور خدائی پروگراموں کے بارے میں عہد و پیمان تھا جن کا توریت میں ذکر کیا گیا تھا۔
کوہ طورسے مراد یھاں اسم جنس ھے یا یہ مخصوص پھاڑ ھے۔اس سلسلے میں دو تفسیریں موجودھیں۔بعض کہتے ھیں کہ طور اسی مشهور پھاڑ کی طرف اشارہ ھے جھاں حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وحی نازل هوئی۔
لیکن بعض کے نزدیک یہ احتمال بھی ھے کہ طور لغوی معنی کے لحاظ سے مطلق پھاڑ ھے۔ یہ وھی چیز ھے جسے سورہ اعراف کی آیہ۱۷۱ میں ”جبل“سے تعبیر کیا گیا ھے:
توریت عبرانی زبان کا لفظ ھے، اس کا معنی ھے”شریعت“اور”قانون“۔یہ لفظ خداکی طرف سے
حضرت موسیٰ علیہ السلام بن عمران پر نازل هونے والی کتاب کے لئے بولا جاتا ھے۔نیز بعض اوقات عہد عتیق کی کتب کے مجموعے کے لئے اور کبھی کبھی توریت کے پانچوں اسفار کے لئے بھی استعمال هوتا ھے۔
اس کی وضاحت یہ ھے کہ یهودیوں کی کتب کے مجموعے کو عہد عتیق کہتے ھیں۔اس میں توریت اور چنددیگر کتب شامل ھیں۔
توریت کے پانچ حصے ھیں:
جنھیںسفر پیدائش،سفر خروج،سفر لاویان،سفر اعداد اور سفر تثنیہ کہتے ھیں۔ اس کے موضوعات یہ ھیں:
۱)کائنات،انسان اور دیگر مخلوقات کی خلقت۔
۲)حضرت موسیٰ(ع) بن عمران،گذشتہ انبیاء اور بنی اسرائیل کے حالات وغیرہ۔
۳)اس دین کے احکام کی تشریح۔
عہد عتیق کی دیگر کتابیں در اصل حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد کے موٴرخین کی تحریر کردہ ھیں۔ ان میں حضرت موسیٰ(ع) بن عمران کے بعد کے نبیوں،حکمرانوں اور قوموں کے حالات بیان کئے گئے ھیں۔
یہ بات بغیر کھے واضح ھے کہ توریت کے پانچوں اسفار سے اگرصرف نظر کرلیا جائے تو دیگر کتب میں سے کوئی کتاب بھی آسمانی کتاب نھیں ھے۔ خود یهودی بھی اس کا دعویٰ نھیں کرتے۔یھاں تک کہ حضرت داوٴد(ع) سے منسوب زبور جسے وہ ”مزامیر“ کہتے ھیں،حضرت داوٴد(ع) کے مناجات اور پندو نصائح کی تشریح ھے۔
رھی بات توریت کے پانچوں سفروں کی تو ان میں ایسے واضح قرائن موجود ھیںجو اس بات کی نشاندھی کرتے ھیں کہ وہ بھی آسمانی کتابیں نھیں ھیں بلکہ وہ تاریخی کتاب ھیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد لکھی گئی ھیں کیونکہ ان میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات،ان کے دفن کی کیفیت اور ان کی وفات کے بعد کے کچھ حالات مذکور ھیں ۔
خصوصاً سفر تثنیہ کے آخری حصے میں یہ بات وضاحت سے ثابت هوتی ھے کہ یہ کتاب حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام کی وفات سے کافی مدت بعد لکھی گئی ھے۔
علاوہ ازیں ان کتب میں بہت سی خرافات اور ناروا باتیں انبیاء و مرسلین سے منسوب کردی گئی ھیں۔بعض بچگانہ باتیں بھی ھیں جو ان کے خود ساختہ اور جعلی هونے پر گواہ ھیں نیز بعض تاریخی شواہد بھی نشاندھی کرتے ھیں کہ اصلی توریت غائب هوگئی اور پھر حضرت موسیٰ(ع) بن عمران علیہ السلام کے پیروکاروں نے یہ کتابیں تحریر کیں۔
[1] سورہٴ مومن آیت ۲۶۔
[2] سورہٴ مومن آیت ۲۶۔
[3] سورہ مومن آیت ۲۷۔
[4] سورہ مومن آیت۲۸۔
[5] سورہ مومن آیت ۲۸۔
[6] سورہ مومن ۲۸۔
[7] سورہ مومن آیت ۲۸۔
[8] سورہ مومن آیت۲۹۔
[9] سورہ مومن آیت۲۹ ۔
[10] سورہ مومن آیت ۳۱۔
[11] سورہ مومن آیت ۳۱۔
[12] سورہ مومن آیت۳۱۔
[13] سورہ مومن آیت۳۲۔
[14] سورہ مومن آیت۴۵ ۔
[15] سورہ مومن آیت۳۷۔
[16] سورہ اعراف ۱۳۰۔
[17] سورہ اعراف ۱۳۱ ۔
[18] سورہ اعراف آیت ۱۳۲۔
[19] سورہٴ اعراف کی آیت ۱۳۳ میں ان بلاوٴں کا نام لیا گیا ھے ۔
[20] سورہ اعراف آیت ۱۳۳۔
[21] ملاحظہ هو سفر خروج فصل ہفتم تا دھم توریت۔
[22] اعراف آیت ۱۳۴۔
[23] سورہٴ اعراف آیت ۱۳۵۔
[24] سورہٴ زخرف آیت ۵۱۔
[25] سورہٴ زخرف آیت ۵۲۔
[26] سورہٴ طہٰ آیت ۲۷۔
[27] سورہٴ یونس آیت۸۷۔
[28] سورہٴ یونس آیت۸۷۔
[29] سورہٴ یونس آیت۸۷۔
[30] سورہٴ یونس آیت ۸۷۔
[31] سورہٴ شعراء آیت ۵۲۔
[32] سورہٴ شعراء آیت۵۳۔
[33] سورہٴ شعراء آیت ۵۴۔
[34] سورہٴ شعراء آیت۵۵۔
[35] سورہٴ شعراء آیت ۵۶۔
[36] سورہٴ شعراء آیت۵۷تا۵۹۔
[37] سورہ ٴشعراء آیت ۵۹۔
آیا بنی اسرائیل نے مصر میں حکومت کی ھے؟
خدا وند عالم قرآن مجید میں فرماتا ھے کہ ھم نے بنی اسرائیل کو فرعون والوں کا وارث بنایا۔ اسی تعبیر کی بناء پر بعض مفسرین کی یہ رائے ھے کہ بنی اسرائیل کے افراد مصر کی طرف واپس لوٹ آئے اور زمام حکومت و اقتدار اپنے قبضے میں لے کر مدتوں وھاں حکومت کرتے رھے۔
آیات بالا کا ظاھری مفهوم بھی اسی تفسیر سے مناسبت رکھتا ھے۔
جبکہ بعض مفسرین کی رائے یہ ھے کہ وہ لوگ فرعونیوں کی ھلاکت کے بعد مقدس سرزمینوں کی طرف چلے گئے البتہ کچھ عرصے کے بعد مصر واپس آگئے اور وھاں پر اپنی حکومت تشکیل دی۔
تفسیر کے اسی حصے کے ساتھ موجودہ توریت کی فصول بھی مطابقت رکھتی ھیں۔
بعض دوسرے مفسرین کا خیال ھے کہ بنی اسرائیل دوحصوں میں بٹ گئے۔ایک گروہ مصر میں رہ گیا اور وھیں پر حکومت کی اور ایک گروہ موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ سر زمین مقدس کی طرف روانہ هو گیا۔
یہ احتمال بھی ذکر کیا گیا ھے کہ بنی اسرائیل کے وارث هونے سے مراد یہ ھے کہ انھوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد اور جناب حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے میں مصر کی وسیع و عریض سر زمین پر حکومت کی۔
لیکن اگر اس بات پر غور کیا جائے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام چونکہ انقلابی پیغمبر تھے لہٰذا یہ بات بالکل بعید نظر آتی ھے کہ وہ ایسی سر زمین کو کلی طور پر خیر باد کہہ کر چلے جائیں جس کی حکومت مکمل طور پر انھیں کے قبضہ اور اختیارمیں آچکی هو اور وہ وھاں کے بارے میں کسی قسم کا فیصلہ کئے بغیر بیابانوں کی طرف چل دیں خصوصاً جب کہ لاکھوں بنی اسرائیلی عرصہ دراز سے وھاں پر مقیم بھی تھے اور وھاں کے ماحول سے اچھی طرح واقف بھی تھے۔
بنابریں یہ کیفیت دوحال سے خالی نھیں یا تو تمام بنی اسرائیلی مصر میں واپس لوٹ آئے اور حکومت تشکیل دی،یا کچھ لوگ جناب موسیٰ علیہ السلام کے حکم کے مطابق وھیں رہ گئے تھے اور حکومت چلاتے رھے اس کے علاوہ فرعون او رفرعون والوں کے باھر نکال دینے او ربنی اسرائیل کو ان کا وارث بنادینے کا اور کوئی واضح مفهوم نھیں هوگا۔
[38] سورہ شعراء آیت۶۱۔
[39] سورہ شعراء آیت ۶۲۔
[40] سورہ شعراء آیت۶۳ ۔
[41] سورہ شعراء آیت ۶۳۔
[42] سورہ شعراء آیت۶۵۔
[43] سورہ شعراء آیت ۶۶
[44] سورہ یونس آیت ۹۰۔
[45] سورہ یونس آیت ۹۰۔
[46] سورہ یونس آیت ۹۰۔
[47] سورہ اعراف آیت ۱۳۸۔
[48] سورہ اعراف آیت ۱۳۸۔
[49] سورہ اعراف ۱۳۸۔
[50] سورہ اعراف آیت ۱۳۹
[51] سورہ اعراف۱۴۰۔
[52] سورہ اعراف آیت ۱۴۱ ۔
[53] سورہ اعراف آیت ۱۴۱۔
[54] سورہ مائدہ آیت۲۱۔
[55] سورہ مائدہ آیت ۲۲۔vv
[56] خصوصاً ” عوج“ کے بارے میں خرافات سے معمور ایسی کھانیاں تاریخوں میں ملتی ھیں ۔اس سے معلوم هوتا ھے کہ ایسے افسانے جن میں سے بعض اسلامی کتب میں بھی آگئے ھیں، دراصل بنی اسرائیل کے گھڑے هوئے ھیں انھیں عام طورپر ” اسرائیلیات“کھا جاتا ھے اس کی دلیل یہ ھے کہ خود موجودہ توریت کے متن میں ایسے افسانے دکھائی دیتے ھیں ۔
[57] سورہ مائدہ آیت ۲۳۔
[58] سورہ مائدہ آیت۲۴۔
[59] سورہ مائدہ آیت۲۵۔
[60] سورہ مائدہ آیت۲۶۔
[61] سورہ مائدہ آیت۔
[62] سورہء بقر آیت۵۷۔
[63] سورہٴ بقر آیت۵۷۔
[64] توریت میں ھے کہ ”منّ“دھنیے کے دانوں جیسی کوئی چیزھے جو رات کو اس سر زمین پر آگرتی تھی،بنی اسرائیل اسے اکٹھا کرکے پیس لیتے اور اس سے روٹی پکاتے تھے جس کا ذائقہ روغنی روٹی جیسا هوتا تھا۔
ایک احتمال اور بھی ھے کہ بنی اسرائیل کی سرگردانی کے زمانے میں خدا کے لطف وکرم سے جو نفع بخش بارشیں برستی تھیں ان کے نتیجے میں درختوں سے کوئی خاص قسم کا صمغ اور شیرہ نکلتا تھا اور بنی اسرائیل اس سے مستفید هوتے تھے۔
بعض دیگر حضرات کے نزدیک”من“ایک قسم کا طبیعی شہد ھے اور بنی اسرائیل اس بیابان میں طویل مدت تک چلتے پھرتے رہنے سے شہد کے مخزنوں تک پہنچ جاتے تھے کیونکہ ”بیابان تیہ “کے کناروں پر پھاڑ اور سنگلاخ علاقہ تھا جس میں کافی طبیعی شہد نظر آجاتا تھا۔
عہدین(توریت اور انجیل)پر لکھی گئی تفسیر سے اس تفسیر کی تائید هوتی ھے جس میں ھے کہ مقدس سر زمین قسم قسم کے پھولوں اور شگوفوں کی وجہ سے مشهور ھے اسی لئے شہد کی مکھیوں کے جتھے ھمیشہ پتھروں کے سوراخوں،درختوں کی شاخوں اور لوگوں کے گھروں پر جا بیٹھتے ھیں اس طرح سے بہت فقیر و مسکین لوگ بھی شہد کھا سکتے تھے۔
اس تحریر سے بھی واضح هوتا ھے کہ سلویٰ سے مراد وھی پر گوشت پرندہ ھے جو کبوتر کے مشابہ اور اس کے ھم وزن هوتا ھے اور یہ پرندہ اس سر زمین میں مشهور ھے ۔
[65] اس میں لکھا ھے معلوم هونا چاھیے کہ بہت بڑی تعداد میں سلویٰ افریقہ سے چل کے شمال کو جاتے ھیں۔”جزیرہٴ کاپری“ میںایک فصل میں ۱۶ہزار کی تعداد میں ان کا شکار کیا گیا ۔یہ پرندہٴ بحیرہٴ قلزم کے راستے سے آتا ھے۔ خلیج عقبہ اور رسویز کو عبور کرتا ھے۔ ہفتے کو جزیرہ سینا میں داخل هوتا ھے اور راستے میں اس قدر تکان و تکلیف جھیلنے کی وجہ سے آسانی سے ھاتھ سے پکڑا جا سکتا ھے، اور جب پرواز کرتا ھے تو زمین کے قریب هوتا ھے۔اس حصے کے متعلق(توریت کے)سفر خروج اور سفر اعداد میں گفتگو هوئی ھے۔
[66] سورہٴ بقرہ آیت۶۰۔
[67] سورہٴ بقرہ آیت ۶۰۔
[68] سورہٴ بقرہ آیت۶۰۔
[69] توریت کی سترھویں فصل میں سفر خروج کے ذیل میں بھی یوں لکھا ھے:
”خدا نے موسیٰ علیہ السلام سے کھا:قوم کے آگے آگے رهو اور اسرائیل کے بعض بزرگوں کو ساتھ لے لو اور وہ عصا جسے نھر پر مارا تھا ھاتھ میں لے کر روانہ هو جاؤ۔ میں وھاں تمھارے سامنے کوہ حوریب پر کھڑا هوجاؤں گا۔ اور اسے پتھر پر مارو،اس سے پانی جاری هوجائےگا ،تاکہ قوم پی لے اور موسیٰ علیہ السلام نے اسرائیل کے مشائخ اور بزرگوں کے سامنے ایسا ھی کیا“۔
[70] سورہٴ بقرہ آیت۶۰۔
[71] سورہٴ بقرہ آیت۶۱۔
[72] سورہٴ بقرہ آیت۶۱۔
[73] سورہٴ بقرہ آیت۶۱۔
[74] سورہٴ بقرہ آیت۶۱۔
[75] سورہٴ بقرہ آیت۶۱۔
[76] سورہٴ اعراف آیت ۱۴۲۔
[77] سورہٴ اعراف آیت۱۴۳۔
[78] پھلا سوال یہ پیدا هوتا ھے کہ خدا نے پھلے ھی سے چالیس راتوں کا وعدہ کیوں نہ کیا بلکہ پھلے تیس راتوں کا وعدہ کیا اس کے بعد دس راتوں کا اور اضافہ کردیا۔
مفسرین کے درمیان اس تفریق کے بارے میں بحث ھے، لیکن جو بات بیشتر قرین قیاس ھے،نیز روایات
اھل بیت علیھم السلام کے بھی موافق ھے وہ یہ ھے کہ یہ میعاد اگر چہ واقع میں چالیس راتوں کا تھا لیکن خدا نے بنی اسرائیل کی آزمائش کرنے کے لئے پھلے موسیٰ علیہ السلام کو تیس راتوں کی دعوت دی پھر اس کے بعد اس کی تجدید کردی تا کہ منافقین مومنین سے الگ هوجائیں۔اس سلسلے میں امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل هوا ھے کہ آپ(ع) نے فرمایا:
جس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام وعدہ گاہ الٰھی کی طرف گئے تو انهوں نے بنی اسرائیل سے یہ کہہ رکھا تھا کہ ان کی غیبت تیس روز سے زیادہ طولانی نہ هوگی لیکن جب خدا نے اس پر دس دنوں کا اضافہ کردیا تو بنی اسرائیل نے کھا:موسیٰ علیہ السلام نے اپنا وعدہ توڑ دیا اس کے نتیجہ میں انهوں نے وہ کام کئے جو ھم جانتے ھیں(یعنی گوسالہ پرستی میں مبتلا هوگئے۔)
رھا یہ سوال کہ یہ چالیس روز یا چالیس راتیں،اسلامی مھینوں میں سے کونسا زمانہ تھا؟ بعض روایات سے معلوم هوتا ھے کہ یہ مدت ذیقعدہ کی پھلی تاریخ سے لے کر ذی الحجہ کی دس تاریخ تک تھی۔ قرآن میں چالیس راتوں کا ذکر ھے نہ کہ چالیس دنوں کا۔ تو شاید اس وجہ سے ھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اپنے رب سے جو مناجاتیں تھیں وہ زیادہ تر رات ھی کے وقت هوا کرتی تھیں۔
اس کے بعد ایک اور سوال سامنے آتا ھے،وہ یہ کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کسطرح اپنے بھائی ھارون(ع) سے کھا کہ:قوم کی اصلاح کی کوشش کرنا اور مفسدوں کی پیروی نہ کرنا،جبکہ حضرت ھارون(ع) ایک نبی ٴ برحق اور معصوم تھے وہ بھلا مفسدوں کی پیروی کیوں کرنے لگے؟
اس کا جواب یہ ھے کہ:یہ درحقیقت اس بات کی تاکید کے لئے تھا کہ حضرت ھارون(ع) کو اپنی قوم میں اپنے مقام کی اھمیت کا احساس رھے اور شاید اس طرح سے خود بنی اسرائیل کو بھی اس بات کا احساس دلانا چاہتے تھے کہ وہ ان کی غیبت میں حضرت ھارون(ع) کی رہنمائی کا اچھی طرح اثر لیں اور ان کا کہنا مانیں اور ان کے اوامر ور نواھی(احکامات)کو اپنے لئے سخت نہ سمجھیں،اس سے اپنی تحقیر خیال نہ کریں اور انکے سامنے اس طرح مطیع و فرمانبرداررھیں جس طرح وہ خود حضرت موسیٰ علیہ السلام کے فرمانبردار تھے۔
[79] سورہٴ اعراف ۱۴۳۔
[80] سورہ اعراف آیت۱۴۳۔
[81] حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کس چیز سے توبہ کی ؟اس بارے میں جوسوال سامنے آتا ھے یہ ھے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام هوش میں آئے تو انهوں نے کیوں کھا :”میں تو بہ کر تا هوں“
حالانکہ انهوں نے کوئی خلاف ورزی نھیں کی تھی۔کیونکہ اگر انهوں نے یہ درخواست اپنی امت کی طرف سے کی تھی تو اس میں ان کا کیا قصور تھا،اللہ کی اجازت سے انهوں نے یہ درخواست خدا کے سامنے پیش کی اور اگر اپنے لئے شهود باطنی کی تمنا کی تھی تو یہ بھی خدا کے حکم کی مخالفت نہ تھی،لہٰذا توبہ کس بات کی تھی؟دوطرح سے اس سوال کا جواب دیا جا سکتا ھے:
اول:یہ کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کی نمائندگی کے طور پر خداسے یہ سوال کیا تھا،اس کے بعد جب خدا کی طرف سے سخت جواب ملا جس میں اس سوال کی غلطی کو بتلایا گیا تھا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے توبہ بھی انھیں کی طرف سے کی تھی۔
دوم:یہ کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اگر چہ یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ بنی اسرائیل کی درخواست کو پیش کریں لیکن جس وقت پروردگار کی تجلی کا واقعہ رونما هوا اور حقیقت آشکار هوگئی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی یہ ماموریت ختم هوچکی تھی اب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو چاہئیے کہ پھلی حالت(یعنی قبل از ماموریت)کی طرف پلٹ جائیں اور اپنے ایمان کا اظھار کریں تاکہ کسی کے لئے جائے شبہ باقی نہ رھے،لہٰذا اس حالت کا اظھار موسیٰ علیہ السلام نے اپنی توبہ اور اس جملہ ”انی تبت الیک وانا اول الموٴمنین“سے کیا۔
[82] سورہ اٴعراف۱۴۴۔
[83] سورہ ٴ اعراف۱۴۴۔
[84] سورہٴ اعراف آیت ۱۴۵۔
[85] سورہٴ اعراف آیت۱۴۵۔
[86] یھاں پردو چیزوں کی طرف توجہ کرنا ضروری ھے:
[87] سورہ اعراف آیت ۱۴۸۔
[88] جیسا کہ سورہ طہٓ کی آیات میں آیاھے ۔
[89] سورہ ٴ اعراف آیت ۱۵۹۔
[90] سورہ اعراف آیت۱۵۰۔
[91] سورہ اعراف آیت ۱۵۰۔
[92] سورہ اعراف ۱۵۰۔
[93] سورہ طٰہٰ آیت ۱۵۰۔
[94] سورہ اعراف آیت ۱۵۱۔
[95] سورہ اعراف آیت ۱۵۰۔
[96] قرآن اور موجود ہ توریت کا ایک موازنہ
جیسا کہ آیات سے معلوم هوتا ھے کہ ” گوسالہ “ کو نہ تو بنی اسرائیل نے بنایا تھا نہ حضرت ھارون علیہ السلام نے ،بلکہ بنی اسرائیل میں سے ایک شخص سامری نے یہ حرکت کی تھی، جس پر حضرت ھارون علیہ السلام جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بھائی اور ان کے معاون تھے خاموش نہ بیٹھے بلکہ انهوں نے اپنی پوری کوشش صرف کی، انهوں نے اتنی کوشش کی کہ نزدیک تھا کہ لوگ انھیں قتل کردیتے ۔
لیکن عجیب بات یہ ھے کہ موجودہ توریت میں گوسالہ سازی اور بت پرستی کی طرف دعوت کو حضرت ھارون علیہ السلام کی طرف نسبت دی گئی ھے، چنانچہ توریت کے سفر خروج کی فصل ۳۲ میں یہ عبارت ملتی ھے:
جس وقت قوم موسیٰ نے دیکھا کہ موسیٰ کے پھاڑسے نیچے اترنے میں دیر هوئی تو وہ ھارون کے پاس اکٹھا هوئے اور ان سے کھا اٹھو اور ھمارے لئے ایسا خدا بناؤ جوھمارے آگے آگے چلے کیونکہ یہ شخص موسیٰ جو ھم کو مصر سے نکال کریھاں لایا ھے نھیں معلوم اس پر کیا گذری، ھارون نے ان سے کھا: طلائی بندے (گوشوارے) جو تمھاری عورتوںاور بچوں کے کانوں میں ھیں انھیں ان کے کانوں سے اتار کر میرے پاس لاوٴ،پس پوری قوم ان گوشواروںکو کانوں سے جدا کر کے ھارون کے پاس لائی، ھارون نے ان گوشواروں کو ان لوگوں کے ھاتھوں سے لیا اور کندہ کرنے کے ایک آلہ کے ذریعے تصویر بنائی اور اس سے ایک گوسالہ کا مجسمہ ڈھالااور کھا کہ اے بنی اسرائیل یہ تمھارا خدا ھے جو تمھیں سرزمین مصر سے باھر لایا ھے ۔۔۔“
اسی کے ذیل میں ان مراسم کوبیان کیا گیا ھے جوحضرت ھارون نے اس بت کے سامنے قربانی کرنے کے بارے میں بیان کئے تھے ۔
جو کچھ سطور بالا میں بیان هوا یہ بنی اسرائیل کی گوسالہ پرستی کی داستان کا ایک حصہ ھے جو توریت میں مذکورھے اس کی عبارت بعینہ نقل کی گئی ھے حالانکہ خود توریت نے حضرت ھارون کے مقام بلندکومتعدد فصول میں بیان کیا ھے ان میں سے ایک یہ ھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزات حضرت ھارون علیہ السلام کے ذریعے ظاھر هوئے تھے (فصل ۸ از سفر خروج توریت ) اور ھارون علیہ السلام کا حضرت مو سیٰ علیہ السلام کے ایک رسول کی حیثیت سے تعارف کروایا گیا ھے۔ (فصل ۸ از سفر خروج)
بھرکیف حضرت ھارون علیہ السلام جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جانشین برحق تھے اور ان کی شریعت کے سب سے بڑے عالم وعارف تھے توریت ان کے لئے مقام بلند کی قائل ھے اب ذراان خرافات کو بھی دیکھ لیجئے کہ انھیں ایک بت سازھی نھیں بلکہ ایک مئوسس بت پرستی کی حیثیت سے روشناس کرایا ھے بلکہ ”عذر گناہ بد تراز گناہ“ کے مقولہ کے مطابق ان کی جانب سے ایک غلط عذر پیش کیا کیونکہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان پر اعتراض کیا تو انهوں نے یہ عذر پیش کیا کہ چونکہ یہ قوم بدی کی طرف مائل تھی اس لئے میں نے بھی اسے اس راہ پرلگادیا جبکہ قرآن ان دونوں بلند پایہ پیغمبروں کو ھر قسم کے شرک اور بت پرستی سے پاک وصاف سمجھتا ھے ۔
صرف یھی ایک مقام نھیں جھاں قرآن تاریخ انبیاء ومرسلین کی پاکی وتقدس کا مظھرھے جبکہ موجودہ توریت کی تاریخ انبیاء ومرسلین کی ساحت قدس کے متعلق انواع واقسام کی خرافات سے بھری هوئی ھے ھمارے عقیدہ کے مطابق حقانیت واصالت قرآن اور موجودہ توریت وانجیل کی تحریف کو پہچاننے کا ایک طریقہ یہ بھی ھے کہ ان دونوں میں انبیاء کی جو تاریخ بیان کی گئی ھے اس کا موازنہ کرلیا جائے اس سے اپنے آپ پتہ چل جائیگا کہ حق کیا ھے اور باطل کیا ھے؟
[97] سورہ طہٰ آیت۹۶۔
[98] سورہٴ طہٰ آیت۹۷۔
[99] سورہٴ طہ آیت ۹۷۔
[100] سورہ طہٰ آیت۹۷۔
[101] سامری کون ھے ؟ اصل لفظ ” سامری“ عبرانی زبان میں ” شمری “ ھے اور چونکہ یہ معمول ھے کہ جب عبرانی زبان کے الفاظ عربی زبان میں آتے ھیںتو ” شین“ کا لفظ ”سین“ سے بدل جاتا ھے ، جیسا کہ ” موشی “ ”موسی“ سے اور ” یشوع“ ” یسوع“ سے تبدیل هوجاتاھے اس بناء پر سامری بھی ” شمرون “ کی طرف منسوب تھا‘ اور” شمرون“ ” یشاکر“ کا بیٹا تھا، جو یعقوب کی چوتھی نسل ھے ۔اسی سے یہ بات بھی واضح هوجاتی ھے کہ بعض عیسائیوں کا قرآن پر یہ اعتراض بالکل بے بنیادھے کہ قرآن نے ایک ایسے شخص کو کہ جو موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں رہتا تھا اور وہ گوسالہ پرستی کا سر پرست بنا تھا ،شھر سامرہ سے منسوب ”سامری“کے طورپر متعارف کرایا ھے، جب کہ شھر سامرہ اس زمانے میں بالکل موجود ھی نھیں تھا ،کیونکہ جیسا کہ ھم بیان کرچکے ھیں کہ ”سامری “ شمرون کی طرف منسوب ھے نہ کر سامرہ شھر کی طرف ۔
بھرحال سامری ایک خود خواہ اور منحرف شخص هونے کے باوجود بڑا هوشیار تھا وہ بڑی جراٴت اور مھارت کے ساتھ بنی اسرائیل کے ضعف کے نکات اور کمزوری کے پھلوؤں سے استفادہ کرتے هوئے اس قسم کا عظیم فتنہ کھڑا کرنے پرقادر هوگیا کہ جو ایک قطعی اکثریت کے بت پرستی کی طرف مائل هونے کا سبب بنے اور جیسا کہ ھم نے دیکھا ھے کہ اس نے اپنی اس خود خواھی اور فتنہ انگیزی کی سزا بھی اسی دنیا میں دیکھ لی ۔“
[102] سورہٴ اعراف آیت ۱۵۲۔
[103] کیا اس عہد وپیمان میں جبر کا پھلو ھے:اس سوال کے جواب میں بعض کہتے ھیں کہ ان کے سروں پر پھاڑ کا مسلط هونا ڈرانے دھمکانے کے طور پر تھا نہ کہ جبر و اضطرار کے طور پر ورنہ جبری عہد و پیمان کی تو کوئی قدرو قیمت نھیں ھے۔لیکن زیادہ صحیح یھی ھے کہ اس میں کوئی حرج نھیں کہ سرکش او رباغی افراد کو تہدید و سزا کے ذریعے حق کے سامنے جھکادیا جائے۔یہ تہدید اور سختی جو وقتی طور پر ھے ان کے غرور کو توڑدے گی۔ انھیں صحیح غور و فکر پر ابھارے گی اور اس راستے پر چلتے چلتے وہ اپنے ارادہ و اختیار سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے لگیں گے۔بھر حال یہ پیمان زیادہ تر عملی پھلوؤں سے مربوط تھا ورنہ عقائد کو تو جبرو اکراہ سے نھیں بدلا جاسکتا۔
[104] سورہٴ بقر آیت ۶۳۔
[105] سورہ بقرہ آیت ۶۴۔