اس مقام پر آدم نے اس فرمان الہى كو ديكھا جس ميں آپ كو ايك درخت كے بارے ميں منع كيا گيا تھا ادھر شيطان نے بھى قسم كھا ركھى تھى كہ آدم اور اولاد آدم كو گمراہ كرنے سے باز نہ آئے گا وہ وسوسے پيدا كرنے ميں مشغول ہوگيا جيسا كہ باقى آيات قرآنى سے ظاہر ہوتا ہے اس نے آدم كو اطمينا ن دلايا كہ اگراس درخت سے كچھ ليں تو وہ اوران كى بيوى فرشتے بن جائيں گے اور ہميشہ ہميشہ كے لئے جنت ميں رہيں گے يہاں تك كہ اس نے قسم كھائي كہ ميں تمہارا خير خواہ ہوں _'' (1)
اس طرح اس نے فرمان خدا كو ان كى نظر ميں ايك دوسرے رنگ ميں پيش كيا اور انہيں يہ تصور دلانے كى كوشش كى كہ اس '' شجرہ ممنوعہ'' سے كھالينا نہ صرف يہ كہ ضرر رساں نہيں بلكہ عمر جاوداں يا ملائكہ كا مقام ومرتبہ پالينے كا موجب ہے_ اس بات كى تائيد اس جملے سے بھى ہوتى ہے شيطان كى زبانى وارد ہوا ہے: اے آدم: ''كيا تم چاہتے ہوكہ ميں تمہيں زندگانى جاودانى اور ايسى سلطنت كى رہنمائي كروں جو كہنہ نہ ہوگي؟ ''(2)ايك روايت جو '' تفسير قمي'' ميں امام جعفرصادق عليہ السلام سے اور''عيون اخبار الرضا'' ميں امام على بن موسى رضا عليہ السلام سے مروى ہے;ميں وارد ہوا ہے :
''شيطان نے آدم سے كہا كہ اگر تم نے اس شجرہ ممنوعہ سے كھاليا تو تم دونوں فرشتے بن جائوگے ،اور پھر ہميشہ كے لئے بہشت ميں رہوگے، ورنہ تمہيں بہشت سے باہر نكال ديا جائے گا ''_
آدم نے جب يہ سنا تو فكر ميں ڈوب گئے ليكن شيطان نے اپنا حربہ مزيد كار گر كرنے كے لئے سخت قسم كھائي كہ ميں تم دونوں كا خيرخواہ ہوں_(3)
آدم، جنہيں زندگى كا ابھى كافى تجربہ نہ تھا، نہ ہى وہ ابھى تك شيطان كے دھوكے، جھوٹ اور نيرنگ ميں گرفتار ہوئے تھے ،انہيں يہ يقين نہيں ہوسكتا تھا كہ كوئي اتنى بڑى جھوٹى قسم بھى كھا سكتا ہے اور اس طرح كے جال، دوسرے كو گرفتار كرنے كےلئے پھيلا سكتا ہے، آخركار وہ شيطان كے فريب ميں آگئے اور آب حيات وسلطنت جاودانى حاصل كرنے كے شوق ميں مكر ابليسى كى بوسيدہ رسى كو پكڑكے اس كے وسوسہ كے كنويں ميں اتر گئے رسى ٹوٹ گئي اور انہيں نہ صرف آب حيات ہاتھ نہ آيا بلكہ خدا كى نافرمانى كے گرداب ميں گرفتار ہوگئے ان تمام مطالب كو قرآن كريم نے اپنے ايك جملے ميں خلاصہ كرديا ہے ارشاد ہوتا ہے:''اس طرح سے شيطان نے انہيں دھوكا ديا اور اس نے اپنى رسى سے انہيں كنويں ميں اتار ديا ''_(4)
ادم كو چاہئے تھا كہ شيطان كے سابقہ دشمنى اور خدا كى وسيع حكمت ورحمت كے علم كى بناپر اس كے جال كو پارہ پارہ كرديتے اور اس كے كہنے ميں نہ آتے ليكن جو كچھ نہ ہونا چاہئے تھا وہ ہوگيا _
''بس جيسے ہى آدم وحوانے اس ممنوعہ درخت سے چكھا، فوراً ہى ان كے كپڑے ان كے بدن سے نيچے گرگئے اور ان كے اندام ظاہرہوگئے''_(5)
مذكورہ بالا جملے سے يہ بخوبى ظاہر ہوتا ہے كہ درخت ممنوع سے چكھنے كے ساتھ ہى فوراً اس كابرا اثر ظاہر ہوگيا اور وہ اپنے بہشتى لباس سے جوفى الحقيقت خدا كى كرامت واحترام كا لباس تھا، محروم ہو كر برہنہ ہوگئے _
اس جملہ سے اچھى طرح ظاہر ہوتا ہے كہ آدم وحوايہ مخالفت كرنے سے پہلے برہنہ نہ تھے بلكہ كپڑے پہنے ہوئے تھے ، اگر چہ قرآن ميں ان كپڑوں كى كوئي تفصيل بيان نہيں كى گئي ليكن جو كچھ بھى تھا وہ آدم وحوا كے وقار كے مطابق اور ان كے احترام كے لئے تھا ،جو ان كى نافرانى كے باعث ان سے واپس لے ليا گيا _
ليكن خود ساختہ توريت ميں اس طرح سے ہے :
آدم وحوا اس موقع پربالكل برہنہ تھے ليكن اس برہنگى كى زشتى كو نہيں سمجھتے تھے، ليكن جس وقت انہوں نے اس درخت سے كھايا جو درحقيقت '' علم ودانش'' كا درخت تھا تو ان كى عقل كى آنكھيں كھل گئيں اور اب وہ اپنے كو برہنہ محسوس كرنے لگے اور اس حالت كى زشتى سے آگاہ ہوگئے_
جس '' آدم '' كا حال اس خود ساختہ توريت ميں بيان كيا گيا ہے، وہ فى الحقيقت آدم واقعى نہ تھا بلكہ وہ تو كوئي ايسا نادان شخص تھا جو علم ودانش سے اس قدر دور تھا كہ اسے اپنے ننگا ہونے كا بھى احساس نہ تھا ليكن جس '' آدم ''كا تعارف قرآن كراتا ہے وہ نہ صرف يہ كہ اپنى حالت سے باخبر تا بلكہ اسرار آفرينش (علم اسما) سے بھى آگاہ تھا اور اس كا شمار معلم ملكوت ميں ہوتا تھا، اگر شيطان اس پر اثرانداز بھى ہوا تويہ اس كى نادانى كى وجہ سے نہ تھا، بلكہ اس نے ان كى پاكى اور صفائے نيت سے سوئے استفادہ كيا _
اس بات كى تائيد كلام الہى كے اس قول سے بھى ہوتى ہے:
''اے اولاد آدم : كہيں شيطان تمہيں اس طرح فريب نہ دے جس طرح تمہارے والدين (آدم وحوا) كو دھوكا دے كر بہشت سے باہر نكال ديا اور ان كا لباس ان سے جدا كرديا ''_(6)
اگرچہ بعض مفسرين اسلام نے يہ لكھا ہے كہ آغاز ميں حضرت آدم برہنہ تھے تو واقعاً يہ ايك واضح اشتباہ ہے جو توريت كى تحريركى وجہ سے پيدا ہوا ہے_
بہرحال اس كے بعد قرآن كہتا ہے : '' جس وقت آدم وحوا نے يہ ديكھاتو فوراًبہشت كے درختوں كے پتوں سے اپنى شرم گاہ چھپانے لگے _
اس موقع پر خدا كى طرف سے يہ ندا آئي:'' كيا ميں نے تم دونوں كو اس درخت سے منع نہيں كيا تھا كيا ميںنے تم سے يہ نہيں كہا تھا كہ شيطان تمہارا كھلا دشمن ہے، تم نے كس لئے ميرے حكم كو بھلاديا اور اس پست گرداب ميں گھر گئے ؟(7)
حوالہ جات:
(1) سورہ اعراف آيت20
(2)سورہ طہ آيت 120
(3)سورہ اعراف ايت 21
(4)سورہ اعراف آيت 22
(5)سورہ اعراف آيت 22
(6)سورہ اعراف آيت 27
(7)سورہ اعراف آيت 22
قرآن كريم ميں بلا تفصيل اور بغير نام كے چھ مقام پر'' شجرہ ممنوعہ'' كا ذكر ہوا ہے ليكن كتب اسلامى ميں اس كى تفسير دوقسم كى ملتى ہے ايك تو اس كى تفسير مادى ہے جوحسب روايات '' گندم '' ہے _
اس بات كى طرف توجہ رہنا چاہئے كہ عرب لفظ '' شجرہ ''كا اطلاق صرف درخت پر نہيں كرتے بلكہ مختلف نباتات كو بھى '' شجرہ '' كہتے ہيں چاہے وہ جھاڑى كى شكل ميں ہوں يابيل كى صورت ميں _
دوسرى تفسير معنوى ہے جس كى تعبير روايات اہل بيت عليہم السلام ميں '' شجرہ حسد'' سے كى گئي ہے ان روايات كا مفہوم يہ ہے كہ آدم نے جب اپنا بلند ودرجہ رفيع ديكھا تو يہ تصور كيا كہ ان كا مقام بہت بلند ہے ان سے بلند كوئي مخلوق اللہ نے نہيں پيدا كى اس پر اللہ نے انہيں بتلا يا كہ ان كى اولاد ميں كچھ ايسے اولياء الہى (پيغمبر اسلام اور ان كے اہل بيت عليہم السلام ) بھى ہيں جن كا درجہ ان سے بھى بلند وبالا ہے اس وقت آدم ميں ايك حالت حسد سے مشابہ پيدا ہوئي اور يہى وہ '' شجرہ ممنوعہ'' تھا جس كے نزديك جانے سے آدم كو روكا گيا تھا_
حقيقت امر يہ ہے كہ آدم نے (ان روايات كى بناپر)دو درختوں سے تناول كيا ايك درخت تو وہ تھا جو ان كے مقام سے نيچے تھا، اور انہيں مادى دنيا ميں لے جاتا تھا اور وہ '' گندم'' كا پودا تھا دوسرا درخت معنوى تھا ،جو مخصوص اوليائے الہى كا درجہ تھا اور يہ آدم كے مقام ومرتبہ سے بالاتر تھا آدم نے دونوں پہلوئوں سے اپنى حد سے تجاوز كيا اس لئے انجام ميں گرفتار ہوئے_
ليكن اس بات كى طرف توجہ رہے كہ يہ ''حسد'' حسد حرام كى قسم سے نہ تھا يہ صرف ايك نفسانى احساس تھا جبكہ انہوں نے اس طرف قطعاً كوئي اقدام نہيں كيا تھا جيسا كہ ہم نے بارہاكہا ہے كہ آيات قرانى چونكہ متعدد معانى ركھتى ہيں لہذا اس امر ميں كوئي مانع نہيں كہ '' شجرہ '' سے دونوں معنى مراد لے لئے جائيں_
اتفاقاًكلمہ '' شجرہ '' قرآن ميں دونوں معنى ميں آياہے ، كبھى تو انہى عام درختوں (1)كے معنى ميں استعمال ہوتا ہے، اور كبھى شجرہ معنوى كے معنى ميں استعمال ہوا ہے_(2)
ليكن يہاں پر ايك نكتہ ہے جس كى طرف توجہ دلانا مناسب ہے اور وہ يہ ہے كہ موجودہ خود ساختہ توريت ميں ، جو اس وقت كے تمام يہود ونصارى كى قبول شدہ ہے اس شجرہ ممنوعہ كى تفسير '' شجرہ علم ودانش اور شجرہ حيات وزندگى '' كى گئي ہے توريت كہتى ہے:
''قبل اس كے آدم شجرہ علم ودانش سے تناول كريں،وہ علم ودانش سے بے بہرہ تھے حتى كہ انہيں اپنى برہنگى كا بھى احساس نہ تھا جب انہوں نے اس درخت سے كھايا اس وقت وہ واقعى آدم بنے اور بہشت سے نكال ديئے گئے كہ مبادا درخت حيات وزندگى سے بھى كھاليں اور خدائوں كى طرح حيات جاويدانى حاصل كرليں_''(3)
يہ عبارت اس بات كى كھلى ہوئي دليل ہے كہ موجودہ توريت آسمانى كتاب نہيں ہے بلكہ كسى ايسے كم اطلاع انسان كى ساختہ ہے جو علم و دانش كو آدم كے لئے معيوب سمجھتا ہے، اور آدم كو علم ودانش حاصل كرنے كے جرم ميں خدا كى بہشت سے نكالے جانے كا مستحق سمجھتا تھا، گويا بہشت فہميدہ انسان كے لئے نہيں ہے
حوالہ جات:
(1) جيسے ( وَشَجَرَةً تَخرُجُ من طُور سَينَاءَ تَنبُتُ بالدُّهن )جس سے مراد زيتون كادرخت ہے_
(2)جيسے :( وَالشَّجَرَةَ المَلعُونَةَ فى القُرآن ) جس سے مراد مشركين يا يہودى يا دوسرى باغى قوميں (جيسے بنى اميہ ) ہيں
(3) سفر تكوين فصل دوم نمبر 17
''اصحاب الرس'' (1)كون ہيں (1)اس سلسلے ميں بہت اختلات ہے _(3)
وہ ايسے لوگ تھے جو'' صنوبر''كے درخت كى پوجاكرتے تھے اور اسے ''درختوں كا بادشاہ ''كہتے تھے يہ وہ درخت تھا جسے جناب نوح عليہ السلام كے بيٹے ''يافث'' نے طوفان نوح كے بعد ''روشن اب''كے كنارے كاشت كيا تھا ''رس''نامى نہر كے كنارے انھوں نے بارہ شہر اباد كر ركھے تھے جن كے نا م يہ ہيں: ابان ،اذر،دي،بہمن ،اسفند ،فروردين،اردبہشت ،خرداد ،تير،مرداد، شہريور،اور مہر،ايرانيوں نے اپنے كلنڈر كے بارہ مہينوں كے نام انہى شہروں كے نا م پر ركھے ہوئے ہيں _
چونكہ وہ درخت صنوبر كا احترام كرتے تھے لہذا انھوں نے اس كے بيج كو دوسرے علاقوں ميں بھى كاشت كيا اور ابپاشى كے لئے ايك نہر كو مختص كرديا انھوں نے اس نہر كاپانى لوگوں كے لئے پينا ممنوع قرار دے ديا تھا ،حتى كہ اگر كوئي شخص اس سے پى ليتا اسے قتل كر ديتے تھے وہ كہتے تھے كيونكہ يہ ہمارے خداو ں كا سرمايہ حيات ہے لہذا مناسب نہيں ہے كہ كوئي اس سے ايك گھونٹ پانى كو كم كردے.
وہ سال كے بارہ مہينوں ميں سے ہر ماہ ايك ايك شہر ميں ايك دن كے لئے عيد منايا كرتے تھے اور شہر سے باہر صنوبر كے درخت كے پاس چلے جاتے اس كے لئے قربانى كرتے اور جانوروں كو ذبح كركے اگ ميں ڈال ديتے جب اس سے دھواں اٹھتا تو وہ درخت كے اگے سجدے ميں گر پڑتے اور خوب گريہ كيا كرتے تھے _ہر مہينے ان كا يہى طريقہ كار تھا چنانچہ جب ''اسفند ''كى ابادى اتى تو تمام بارہ شہروں كے لوگ يہاں جمع ہو تے اور مسلسل بارہ دن تك وہاں عيد منايا كرتے كيونكہ يہ ان كے بادشاہوں كا دارالحكومت تھا يہيں پر وہ مقدور بھر قربانى بھى كيا كرتے اور درخت كے اگے سجدے بھى كيا كرتے _
جب وہ كفر اور بت پرستى كى انتہا كو پہنچ گئے تو خدا وند عالم نے بنى اسرائيل ميں سے ايك نبى ان كى طرف بھيجا تاكہ وہ انھيں شرك سے روكے اور خدائے وحدہ لاشريك كى عبادت كى دعوت دے ليكن وہ اس نبى پر ايمان نہ لائے اب اس نبى نے فساد اور بت پرستى كى اصل جڑ يعنى اس درخت كے قلع قمع كرنے كى خدا سے دعا كى اور بڑا درخت خشك ہو گيا ،جب ان لوگوں نے يہ صور ت ديكھى تو سخت پريشان ہوگئے اور كہنے لگے كہ اس شخص نے ہمارے خداو ں پر جادو كر ديا ہے كچھ كہنے لگے كہ ہمارے خدا اس شخص كى وجہ سے ہم پر ناراض ہو گئے ہيں كيونكہ وہ ہميں كفر كى دعوت ديتا ہے_ اب بحث مباحثے كے بعد سب لوگوں نے اللہ كے اس نبى كو قتل كر نے كى ٹھان لى اور گہرا كنوں كھوداجس ميں اسے ڈال ديا اور كنوئيں كامنہ بند كر كے اس كے اوپر بيٹھ گئے اور اس كے نالہ و فرياد كى اواز سنتے رہے يہاں تك كہ اس نے جان جان افريں كے سپرد كردى ،خدا وند عالم نے انھيں ان برائيوں اور ظلم و ستم كى وجہ سے سخت عذاب ميں مبتلا كر كے نيست و نابود كر ديا _
(1)سورہ فرقان ايت 38 ميں اس ظالم وستمگر قوم كا ذكر موجود ہے
(2)''رس''كا لفظ در اصل مختصر اور تھوڑے سے اثر كے معنى ميں ہے جيسے كہتے ہيں :''رس الحديث فى نفسي''(مجھے اس كى تھوڑى سى بات ياد ہے )يا كہا جاتا ہے ''وجد رسا من حمي''(اس نے اپنے اندر بخار كا تھوڑا سا اثر پايا)_ كچھ مفسرين كا نظريہ يہ ہے كہ ''رس'' كا معنى ''كنواں'' ہے_ معنى خواہ كچھ بھى ہو اس قوم كو اس نام سے موسوم كرنے كى وجہ يہ ہے كہ اس كا اب تھوڑا سا اثر يا بہت ہى كم نام اور نشان باقى رہ گيا ہے يا اس وجہ سے انھيں ''اصحاب الرس''كہتے ہيں كہ وہ بہت سے كنوو ں كے مالك تھے يا كنوو ں كا پانى خشك ہو جانے كى وجہ سے ہلاك و برباد ہو گئے
(3)رجوع كريں تفسير نمونہ ج8ص386
قرآن ميں پہلے زمانہ كے كچھ دولتمندوں كے بارے ميں جو ايك سر سبز و شاداب باغ كے مالك تھے اور اخر كار وہ خود سرى كى بناء پر نابود ہوگئے تھے،ايك داستان بيان كرتا ہے ،ايسا معلوم ہوتا ہے كہ يہ داستان اس زمانہ لوگوں ميں مشہور و معروف تھي،اور اسى بناء پر اس كو گواہى كے طورپر پيش كيا گيا ہے جيساكہ ارشاد ہوتا ہے:
''ہم نے انھيں ازمايا ،جيساكہ ہم نے باغ والوں كى ازمائشے كى تھى _''
يہ باغ كہاں تھا ،عظيم شہر صنعا ء كے قريب سر زمين يمن ميں ؟يا سر زمين حبشہ ميں ؟يا بنى اسرائيل كى سر زمين شام ميں ؟يا طائف ميں ؟اس بارے ميں اختلاف ہے ،ليكن مشہور يمن ہى ہے _
اس كا قصہ يہ ہے كہ يہ باغ ايك بوڑھے مر د مومن كى ملكيت تھا ،وہ اپنى ضرورت كے مطابق اس ميں سے لے ليا كرتا اور باقى مستضعفين اور حاجت مندوں كو دے ديتا تھا ،ليكن جب اس نے دنيا سے انكھ بند كر لى (اور مر گيا )تو اس كے بيٹوں نے كہا ہم اس باغ كى پيداوار كے زيادہ مستحق ہيں ،چونكہ ہمارے عيال واطفال زيادہ ہيں ،لہذا ہم اپنے باپ كى طرح عمل نہيں كر سكتے ،اس طرح انھوں نے يہ ارادہ كر ليا كہ ان تمام حاجت مندوں كو جوہر سال اس سے فائدہ اٹھاتے تھے محروم كرديں ،لہذا ان كى سر نوشت وہى ہوئي جو قرآن ميں بيان ہوئي _
ارشاد ہوتاہے :''ہم نے انھيں ازمايا ،جب انھوں نے يہ قسم كھائي كہ باغ كے پھلوں كو صبح كے وقت حاجت مندوں كى نظريں بچا كر چنيں گے _''اور اس ميں كسى قسم كا استشناء نہ كريں گے اور حاجت مندوں كے لئے كوئي چيز بھى نہ رہنے ديں _''(1)
ان كا يہ ارادہ اس بات كى نشاندہى كرتا ہے كہ يہ كام ضرورت كى بناپر نہيں تھا،بلكہ يہ ان كے بخل اور ضعيف ايمان كى وجہ سے تھاكيونكہ انسان چاہے كتناہى ضرورت مند كيوں نہ ہو اگر وہ چاہے تو كثيرپيداو ار والے باغ ميں سے كچھ نہ كچھ حصہ حاجت مندوں كے لئے مخصوص كرسكتاہے _
اس كے بعد اسى بات كو جارى ركھتے ہوئے مزيد كہتا ہے :
''رات كے وقت جب كہ وہ سوئے ہوئے تھے تيرے پروردگار كا ايك گھيرلينے والا عذاب ان كے سارے باغ پر نازل ہوگيا ''(2)
ايك جلانے والى اگ اور مرگ بار بجلى اس طرح سے اس كے اوپر مسلط ہوئي كہ :''وہ سر سبز و شاداب باغ رات كى مانند سياہ اور تاريك ہوگيا _(3)اور مٹھى بھر راكھ كے سوا كچھ بھى باقى نہ بچا_
بہر حال باغ كے مالكوں نے اس گمان سے كہ يہ پھلوںسے لدے درخت اب تيار ہيں كہ ان كے پھل توڑ لئے جائيں :''صبح ہوتے ہى ايك دوسرے كو پكارا_انھوں نے كہا:''اگر تم باغ كے پھلوں كو توڑنا چاہتے ہو تو اپنے كھيت اور باغ كى طرف چلو_''(4)
''اسى طرح سے وہ اپنے باغ كى طرف چل پڑے اور وہ اہستہ اہستہ ايك دوسرے سے باتيں كر رہے تھے _كہ اس بات كا خيال ركھو كہ ايك بھى فقير تمہارے پاس نہ انے پائے _''(5) اور وہ اس طرح اہستہ اہستہ باتيں كر رہے تھے كہ ان كى اواز كسى دوسرے كے كانوں تك نہ پہنچ جائے ،كہيں ايسا نہ ہو كہ كوئي فقير خبردار ہو جائے اور بچے كچے پھل چننے كے لئے يا اپنا پيٹ بھر نے كے لئے تھوڑا سا پھل لينے ان كے پاس اجائے _
ايسا دكھائي ديتا ہے كہ ان كے باپ كے سابقہ نيك اعمال كى بناء پر فقراء كا ايك گروہ ايسے دنوںكے انتظار ميں رہتا تھا كہ باغ كے پھل توڑنے كا وقت شروع ہوتو اس ميں سے كچھ حصہ انھيں بھى ملے ،اسى لئے يہ بخيل اور ناخلف بيٹے اس طرح سے مخفى طورپر چلے كہ كسى كو يہ احتمال نہ ہو كہ اس قسم كا دن اپہنچا ہے ،اور جب فقراء كو اس كى خبر ہو تو معاملہ ختم ہو چكا ہو _
''اسى طرح سے وہ صبح سويرے اپنے باغ اور كھيت ميںجانے كے ارادے سے حاجت مندوں اور فقراء كو روكنے كے لئے پورى قوت اور پختہ ارادے كے ساتھ چل پڑے _''(6)
وہ باغ والے اس اميد پر كہ باغ كى فراواں پيدا وار كو چنيں اور مساكين كى نظريں بچاكر اسے جمع كر ليں اور يہ سب كچھ اپنے لئے خاص كر ليں ،يہاں تك كہ خدا كى نعمت كے اس وسيع دسترخوان پر ايك بھى فقير نہ بيٹھے ،يوں صبح سويرے چل پڑے ليكن وہ اس بات سے بے خبر تھے كہ رات كے وقت جب كہ وہ پڑے سو رہے تھے ايك مرگبار صاعقہ نے باغ كو ايك مٹھى بھر خاكستر ميں تبديل كر ديا ہے _
قرآن كہتا ہے : ''جب انھوں نے اپنے باغ كو ديكھاتو اس كا حال اس طرح سے بگڑ ا ہوا تھا كہ انھوں نے كہا يہ ہمارا باغ نہيں ہے ،ہم تو راستہ بھول گئے ہيں،''(7)
پھر انھوں نے مزيد كہا :''بلكہ ہم توحقيقت ميں محروم ہيں _''(8)
ہم چاہتے تھے كہ مساكين اور ضرور ت مندوںكو محروم كريں ليكن ہم تو خود سب سے زيادہ محروم ہو گئے ہيں مادى منافع سے بھى محروم ہو گئے ہيں اور معنوى بركات سے بھى كہ جو راہ خدا ميں خرچ كرنے اور حاجت مندوں كو دينے سے ہمارے ہاتھ اتيں _
''اس اثنا ميں ان ميں سے ايك جو سب سے زيادہ عقل مند تھا ،اس نے كہا:''كيا ميں نے تم سے نہيں كہا تھا كہ تم خدا كى تسبيح كيوں نہيں كرتے_''(9)
كيا ميں نے نہيں كہاتھا كہ خدا كو عظمت كے ساتھ ياد كرو اور اس كى مخالفت سے بچو ،اس كى نعمت كا شكريہ بجالاو اور حاجت مندوں كو اپنے سوال سے بہرہ مند كرو ليكن تم نے ميرى بات كو توجہ سے نہ سنا اور بدبختى كے گڑھے ميں جاگرے_
يہاں سے معلوم ہوتاہے كہ ان ميں ايك مرد مومن تھا جو انھيں بخل اور حرص سے منع كيا كرتاتھا ،چونكہ وہ اقليت ميں تھا لہذاكوئي بھى اس كى بات پركان نہيںدھرتا تھا ليكن اس درد ناك حادثہ كے بعد اس كى زبان كھل گئي ،اس كى منطق زيادہ تيز اور زيادہ كاٹ كرنے والى ہو گئي ،اور وہ انھيں مسلسل ملامت اور سر زنش كرتا رہا_
وہ بھى ايك لمحہ كےلئے بيدار ہوگئے اور انھوں نے اپنے گناہ كا اعتراف كر ليا :''انھوں نے كہا :ہمارا پرورددگار پاك اور منزہ ہے ،يقينا ہم ہى ظالم و ستمگر تھے،(10)ہم نے اپنے اوپر ظلم كيا اور دوسروں پر بھى _''
ليكن مطلب يہيں پر ختم نہيں ہوگيا:''انھوں نے ايك دوسرے كى طرف رخ كيا او ر ايك دوسرے كى ملامت و سر زنش كرنے لگے ''_(11)
احتمال يہ ہے كہ ان ميں سے ہر ايك اپنى خطا كے اعتراف كے باوجود اصلى گناہ كو دوسرے كے كندھے پر ڈالتا اور شدت كے ساتھ اس كى سرز نش كرتا تھا كہ ہمارى بربادى كا اصل عامل تو ہے ورنہ ہم خدا اور اس كى عدالت سے اس قدر بيگانے نہيں تھے_ اس كے بعد مزيد كہتا ہے كہ جب وہ اپنى بدبختى كى انتہاء سے اگاہ ہوئے تو ان كى فرياد بلند ہوئي اور انھوں نے كہا:''وائے ہو ہم پر كہ ہم ہى سركشى اور طغيان كرنے والے تھے _''(12)
اخر كار انھوں نے اس بيدارى ،گناہ كے اعتراف اور خدا كى بازگشت كے بعد اس كى بارگاہ كى طرف رجوع كيا اور كہا :اميد ہے كہ ہمارا پروردگار ہمارے گناہوں كو بخش دے گا اور ہميں اس سے بہتر باغ دے گا،كيونكہ ہم نے اس كى طرف رخ كرليا ہے اور اس كى پاك ذات كے ساتھ لولگالى ہے _لہذا اس مشكل كا حل بھى اسى كى بے پاياں قدرت سے طلب كرتے ہيں _''(13)
كيا يہ گروہ واقعا ً اپنے فعل پر پشيمان ہوگيا تھا ،اس نے پرانے طرز عمل ميں تجديد نظر كر لى تھى اور قطعى اور پختہ ارادہ كر ليا تھا كہ اگر خدا نے ہميں ائندہ اپنى نعمتوں سے نوازا تو ہم اس كے شكر كا حق ادا كريں گے ؟يا وہ بھى بہت سے ظالموں كى طرح كہ جب وہ عذاب ميں گرفتار ہوتے ہيں تو وقتى طورپر بيدار ہو جاتے ہيں ،ليكن جب عذاب ختم ہو جاتا ہے تو وہ دوبارہ انھيں كاموں كى تكرار كرنے لگتے ہيں _
اس بارے ميں مفسرين كے درميان اختلاف ہے كہ ايت كے لب و لہجہ سے احتمالى طورپر جو كچھ معلوم ہوتا ہے وہ يہ ہے كہ ان كى توبہ شرائط كے جمع نہ ہونے كى بناء پر قبول نہيں ہوئي ،ليكن بعض روايات ميں ايا ہے كہ انھوں نے خلوص نيت كے ساتھ تو بہ كى ،خدا نے ان كى توبہ قبول كر ليا اورا نھيں اس سے بہتر باغ عنايت كيا جس ميں خاص طورپر بڑے بڑے خوشوں والے انگور كے پُر ميوہ درخت تھے _
قرآن اخر ميں كلى طورپر نكالتے ہوئے سب كے لئے ايك درس كے عنوان سے فرماتا ہے :''خدا كا عذاب اس طرح كا ہوتا ہے اور اگر وہ جانيں تو اخرت كا عذاب تو بہت ہى بڑا ہے :''(14)
(1)سورہ قلم ايت 17_18
(2)سورہ قلم ايت 19
(3)سورہ قلم ايت 20
(4)سورہ قلم ايت 21
(5)سورہ قلم ايت 21و22
(6)سورہ قلم ايت 23و24
(7)سورہ قلم ايت 26
(8)سورہ قلم ايت 27
(9)سورہ قلم ايت 28
(10)سورہ قلم ايت 29
(11)سورہ قلم ايت 30
(12)سورہ قلم ايت 31
(13)سورہ قلم ايت 32
(14)سورہ قلم ايت
بنى اسرائيل ميں ايك نامى گرامى عابد تھاجس كا نام ''بر صيصا'' تھا(1)
برصیصا نے طویل عرصے تك پروردگار کی عبادت كى تھى جس كى وجہ سے وہ اس مقام پر پہنچ گيا تھا كہ جان بلب مريضوں كو اس كے پاس لایاجاتا تو اس كى دعا سے تندرست ہو جاتے ۔
ايك دفعہ ایک معقول گھرانے كى عورت كو اس كے بھائي اس كے پا س لائے اور طے پايا كہ كچھ عرصہ تك وہ عورت وہيں رہے تاكہ اس كو شفا حاصل ہو_
اب شيطا ن نے اس كے دل ميں وسوسہ ڈالنے کی ٹھانی اور اسے اپنے دام ميں اسير كيا حتی كہ اس نے اس عورت كے سا تھ زيادتى كى اور اب شیطان عابد کی پاس آیا اور کها که اب کیا کروگے اب تو اس کی بهائی آئیں گے اور تجهے زنده نه چهوڑیں گے.
عابد نے گڑگڑا کر کها: تو اب تم بتاؤ میں کیا کروں؟
شیطان نے کها: سیدہی سی بات ہے۔ اس عورت کو قتل کرو اور اپنے بستر کی نیچے زمین کھودلو اور اسے دفن کرو.
عابد نے ایسا ہی کیا اور شیطان اس عورت کی بهائیون کے پاس پهنچا اور انهیں ماجرا کهہ سنایا۔ وه نہ مانے تو شیطان نے کها: میری ہمراه آؤ میں تمهیں اس کا مدفن دکهاتا ہوں. چنانچه وه شیطان کے ہمراه عابد کے اڈے پر پہنچے اور زمین کود کر لاش نکال ڈالی . یہ خبر سارے شہر ميں پھيل گئي اور امير شہر كے كانوں تك بھی جا پہنچى.
امیر حقيقت حال جاننے کی غرض سے كچھ لوگوں كو ساتھ لے كر چلا۔ پوچھ گچھ کے پعد اس کا جرم ثابت ہؤا تو اس كو اس كى عبادت گاہ سے كھينچ كر باہر لایا گیا۔ اور اقرار گناہ كے بعد اسے سولى پر چڑھائے جانے کا حکم سنایا گیا۔
برصیصا جس وقت وہ سولى پر چڑھايا جانے لگا تو شيطان سامنے نمودار ہؤا اور كہا: ميں نے تجھے اس مصيبت ميں پھنسايا ہے،اب اگر جو كچھ ميں كہوں وہ مان لے تو ميں تيرى نجات كا سامان فراہم كر تا ہوں۔
عابد نے كہا ميں كيا كروں ،اس نے كہا ميرے لئے تيرا صرف ايك سجدہ كافى ہے۔
عابد نے كہا: جس حالت ميں تو مجھے ديكھ رہا ہے اس ميں سجدہ كر نے كا كوئي امكان نہيں ہے۔
شيطان نے كہا: اشارہ ہى كافى ہے۔
عابد نے گوشہ چشم يا ہاتھ سے اشارہ كيا اور اس طرح وه شيطان كے سامنے سجدہ بجا لايا اور اسى وقت سولی پر چڑہایا گیا اور مرگیا.
یون تزکیه نفس نه کرنے والا عابد اس دنيا سے كافر ہوکر رخصت ہؤا.
(1)اس واقعہ كو بعض مفسرين نے سورہ حشر کی آیات 16 اور 17، كے ذيل ميں بيان كيا ہے۔
قرآن مجيدسے اچھى طرح معلوم ہوتا ہے كہ ذوالقرنين ممتاز صفات كے حامل تھے _اللہ تعالى نے كاميابى كے اسباب ان كے اختيار ميں ديئےتھے،انہوں نے تين اہم لشكر كشياں كيں_پہلے مغرب كى طرف،پھر مشرق كى طرف اور آخر ميں ايك ايسے علاقے كى طرف كہ جہاں ايك كوہستانى درہ موجود تھا، ان مسافرت ميں وہ مختلف اقوام سے ملے_ وہ ايك مرد مومن،موحد اور مہربان شخص تھے_ وہ عدل كا دامن ہاتھ سے نہيں چھوڑتے تھے_ اسى بناء پر اللہ كا لطف خاص ان كے شامل حال تھا_ وہ نيكوں كے دوست او رظالموں كے دشمن تھے_ انہيں دنيا كے مال و دولت سے كوئي لگائو نہ تھا_ وہ اللہ پر بھى ايمان ركھتے تھے اور روز جزاء پر بھي_ انہو ں نے ايك نہايت مضبوط ديوار بنائي ہے،يہ ديوار انہوں نے اينٹ اور پتھر كے بجائے لوہے اور تانبے سے بنائي(اور اگر دوسرے مصالحے بھى استعمال ہوئے ہوں تو ان كى بنيادى حيثيت نہ تھي)_اس ديواربنانے سے ان كا مقصد مستضعف اور ستم ديدہ لوگوں كى ياجوج و ماجوج كے ظلم و ستم كے مقابلے ميں مدد كرنا تھا_
وہ ايسے شخص تھے كہ نزول قرآن سے قبل ان كا نام لوگوں ميں مشہور تھا_لہذا قريش اور يہوديوں نے ان كے بارے ميں رسول اللہ (ص) سے سوال كيا تھا، جيسا كہ قرآن كہتا ہے: ''تجھ سے ذوالقرنين كے بارے ميں پوچھتے ہيں :'' رسول اللہ (ص) اور ائمہ اہل بيت عليہم السلام سے بہت سى ايسى روايات منقول ہيں جن ميںہے كہ: ''وہ نبى نہ تھے بلكہ اللہ كے ايك صالح بندے تھے'' _
ديوار ذوالقرنين كہاں ہے ؟
بعض لوگ چاہتے ہيں كہ اسے مشہور ديوار چين پر منطبق كريں كہ جو اس وقت موجود ہے اور كئي سو كلو ميٹر لمبى ہے ليكن واضح ہے كہ ديوار چين لوہے اور تانبے سے نہيں بنى ہے اور نہ وہ كسى چھوٹے كو ہستانى درے ميں ہے ،وہ ايك عام مصالحے سے بنى ہوئي ديوار ہے ،اورجيسا كہ ہم نے كہا ہے كئي سو كلو ميٹر لمبى ہے اور اب بھى موجود ہے _ بعض كااصرار ہے كہ يہ وہى ديوار'' ما رب'' ہے كہ جو يمن ميں ہے ،يہ ٹھيك ہے كہ ديوار ما رب ايك كوہستانى درے ميں بنائي گئي ہے ليكن وہ سيلاب كو روكنے كے لئے اور پانى ذخيرہ كر نے كے مقصد سے بنائي گئي ہے اور ويسے بھى وہ لوہے اور تانبے سے بنى ہوئي نہيںہے_
جب كہ علماء و محققين كى گواہى كے مطابق سرزمين ''قفقاز'' ميں دريائے خزر اور دريائے سياہ كے درميان پہاڑوں كا ايك سلسلہ ہے كہ جو ايك ديوار كى طرح شمال اور جنوب كو ايك دوسرے سے الگ كرتا ہے اس ميں ايك ديوار كى طرح كا درہ كاموجود ہے جو مشہور درہ ''داريال'' ہے ،يہاں اب تك ايك قديم تاريخى لوہے كى ديوار نظر اتى ہے،اسى بناء پر بہت سے لوگوں كا نظريہ ہے كہ ديوار ذوالقرنين يہى ہے _
يہ بات جاذب نظر ہے كہ وہيں قريب ہى ''سائرس''نامى ايك نہر موجود ہے اور ''سائرس''كا معنى ''كورش''ہى ہے (كيونكہ يونانى ''كورش'' كو''سائرس''كہتے تھے)_ ارمنى كے قديم اثار ميں اس ديوار كو''بھاگ گورائي''كے نام سے ياد كيا گيا ہے ،اس لفظ كا معنى ہے ''درہ كورش''يا''معبر كورش''( كورش كے عبور كرنے كى جگہ) ہے يہ سند نشاندہى كرتى ہے كہ اس ديوار كا بانى ''كورش'' ہى تھا_
ياجوج ماجوج(1) كون تھے ؟
قرآن واضح طورپر گواہى ديتا ہے كہ يہ دو وحشى خونخوار قبيلوں كے نام تھے ،وہ لوگ اپنے ارد گرد رہنے والوں پر بہت زيادتياں اور ظلم كرتے تھے _ عظيم مفسر علامہ طباطبائي نے الميزان ميں لكھا ہے كہ توريت كى سارى باتوں سے مجموعى طورپر معلوم ہوتا ہے كہ ماجوج يا ياجوج و ما جوج ايك يا كئي ايك بڑے بڑے قبيلے تھے ،يہ شمالى ايشيا كے دور دراز علاقے ميںرہتے تھے ،يہ جنگجو ،ت گر اور ڈاكو قسم كے لوگ تھے _
تاريخ كے بہت سے دلائل كے مطابق زمين كے شمال مشرق'' مغولستان'' كے اطراف ميں گزشتہ زمانوں ميںانسانوں كا گويا جوش مارتا ہو اچشمہ تھا، يہاں كے لوگوں كى ابادى بڑى تيزى سے پھلتى اورپھولتى تھى ،ابادى زيادہ ہونے پر يہ لوگ مزرق كى سمت يا نيچے جنوب كى طرف چلے جاتے تھے اور سيل رواں كى طرح ان علاقوں ميں پھيل جاتے تھے اور پھر تدريجاً وہاں سكونت اختيار كر ليتے تھے ،تاريخ كے مطابق سيلاب كى مانند ان قوموں كے اٹھنے كے مختلف دور گزرے ہيں _(2)
كورش كے زمانے ميں بھى ان كى طرف ايك حملہ ہوا ،يہ تقريباً پانچ سو سال قبل مسيح كى بات ہے ليكن اس زمانے ميں ''ماد'' اور'' فارس'' كى متحد ہ حكومت معرض وجود ميں اچكى تھى لہذا حالات بد ل گئے اور مغربى ايشيا ان قبائل كے حملوں سے اسودہ خاطر ہوگيا_ لہذا يہ زيادہ صحيح لگتا ہے كہ ياجوج اور ماجوج انہى وحشى قبائل ميں سے تھے ،جب كورش ان علاقوں كى طرف گئے تو قفقاز كے لوگوں نے درخواست كى كہ انھيں ان قبائل كے حملوں سے بچايا جائے ،لہذ اس نے وہ مشہور ديوار تعمير كى ہے جسے ديوار ذوالقرنين كہتے ہيں _
………………………………………………………………………..
(1)قران مجيد كى دو سورتوں ميں ياجوج ماجوج كا ذكر ايا ہے ايك سورہ كہف ايت 94 ميں اور دوسرا سورہ انبياء كى ايت 96 ميں _
(2)ان ميں ايك حملہ ان وحشى قبائل نے چوتھى صدى عيسوى ميں'' اتيلا'' كى كمان ميں كيا،اس حملے ميں روم كا شاہى تمدن خاك ميں مل گيا _ايك اور دور كہ جو ان كے حملوں كا تقريباً اخرى دور شمار ہوتا ہے ،وہ بارہويں صدى ہجرى ميں چنگيز خاں كى سر پرستى ميں ہوا ،انھوں نے مسلمان اور عرب ممالك پر حملہ كيا ،اس حملے ميں بغداد سميت بہت سے شہر تباہ بر باد ہو گئے