وحی کے بارے میں گفتگو اس لحاظ سے اھمیت رکھتی ھے کہ یہ کلام الٰھی کی شناخت کا ذریعہ ھے بلکہ شاید ابحاثِ قرآنی میں سب سے مھم ترین بحث وحی کے بارے میں ھی ھو یعنی وحی کی پہچان اور آسمان سے زمین کے درمیان ارتباط کی پہچان ان سوالات کے جوابات مطالب قرآنی کو سمجھنے میں خاصی مدد دیتے ھیں۔
لفظ وحی معانی کے اعتبار سے کئی معانی میں استعمال ھوا ھے من جملہ ان میں سے اشارہ، کتابت ، پیغام،پوشیدہ گفتگو،مخفی اعلان،جلدی،جوبھی کلام ھو،وہ پیغام یااشارہ جو دوسرے کی طرف بھیجایا کیا جائے ودسروں کی توجہ سے بچاتے ھوئے،کسی بات کا سمجھانا ان سب کو وحی کھا جاتا ھے، ماھر لغت راغب اصفھانی لکھتے ھیں:”وحی یعنی وہ پوشیدہ پیغام جو اشارہ کے ذریعے جلدی انجام پائے۔ ( [1] )
ابو اسحاق نے بھی یھی معنی کئے ھیں۔
قرآن میں وحی کے معانی
لفظ وحی قرآن میں چار معنی میں استعمال ھوا ھے:
۱۔پوشیدہ اشارہ:یہ وھی لغوی معنی ھے جیسا کہ حضرت زکریاںنے جب خاموش رہنے کا روزہ رکھا ھوا تھا جس کا ذکر قرآن میں کچھ اس طرح سے ھے۔
فَخَرَجَ عَلَی قَوْمِہِ مِنْ الْمِحْرَابِ فَاٴَوْحَی إِلَیْہِمْ اٴَنْ سَبِّحُوا بُکْرَةً وَعَشِیًّ([2])
”یعنی وہ محراب عبادت سے لوگوں کی طرف آئے اور لوگوں کو اشارے کے ذریعے کھا کہ صبح وشام اللهکی تسبیح کرو(نعمات پروردگار کے شکرانے میں)“۔
۲۔ فطری ھدایت :یہ وہ فطری وطبیعی ھدایت ھے جو تمام موجودات میں ودیعت کی گئی ھے چاھے جمادات ھوں یا نباتات،حیوانات ھوں یا انسان فطری طور پر ھر ایک اپنی بقا اور بقائے حیات کو چاہتا ھے اس ھدایت طبیعی وفطری کو قرآن میں وحی کے نام سے یاد کیا گیا ھے جیساکہ ارشاد ھوا:
وَاٴَوْحَی رَبُّکَ إِلَی النَّحْلِ اٴَنِ اتَّخِذِی مِنَ الْجِبَالِ بُیُوتًا وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا یَعْرِشُونَ# ثُمَّ کُلِی مِنْ کُلِّ الثَّمَرَاتِ فَاسْلُکِی سُبُلَ رَبِّکِ ذُلُلاً۔۔۔([3])
”یعنی تمھارے پرودگار نے شھد کی مکھی کو وحی کی(یعنی اس میں فطری طور پر الھام کیا)کہ پھاڑوں اور درختوں اور گھروں کی بلندیوں میں گھر بنائے۔ اس کے بعد مختلف پھلوں سے غذا حاصل کر ے اور نرمی کے ساتھ خدائی راستہ پر چلے“۔
۳۔الھام اور غیبی فرمان: کبھی انسان کو ایسا پیغام ملتا ھے کہ اس پیغام آنے کی وجہ کو وہ سمجھ نھیں پاتا ھے(یہ خصوصاًاضطرار کے عالم میں انسان سمجھتا ھے کہ کوئی راہ موجود نھیں ھے)ناگھاں اس کے دل میں امید کی ایک لھر دوڑتی ھے جس سے اس کے لئے راہ روشن ھوجاتی ھے اور اسے اس وحشت ناک کیفیت سے نکال دیتی ھے یہ وھی راہ ھے جو پس پردہ انسان کی مدد کرتی ھے اسے قرآن میں وحی
سے تعبیر کیا گیا ھے جیسا کہ قرآن مادر موسی (ع) کے بارہ میں ارشاد فرماتا ھے:
وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلَیْکَ مَرَّةً اٴُخْریٰ ز إِذْ اٴَوْحَیْنَا إِلیٰ اٴُمِّکَ مَا یُوحیٰز اٴَنْ اقْذِفِیہِ فِی التَّابُوتِ فَاقْذِفِیہِ فِی الْیَمِّ فَلْیُلْقِہِ الْیَمُّ بِالسَّاحِلِ یَاٴْخُذْہُ عَدُوٌّ لِی وَعَدُوٌّ لَہُ وَاٴَلْقَیْتُ عَلَیْکَ مَحَبَّةً مِنِّی وَلِتُصْنَعَ عَلیٰ عَیْنِی ز إِذْ تَمْشِی اٴُخْتُکَ فَتَقُولُ ہَلْ اٴَدُلُّکُمْ عَلیٰ مَنْ یَکْفُلُہُ فَرَجَعْنَاکَ إِلَی اٴُمِّکَ کَیْ تَقَرَّ عَیْنُہَا وَلاَتَحْزَنَ۔۔۔([4])
”یعنی اور ھم نے تم پر ایک اور احسان کیا ھے۔جب ھم نے تمھاری ماں کی طرف ایک خاص وحی کی کہ اپنے بچے کو صندوق میں رکھ دو اور پھر صندوق کو دریا کے حوالے کردو موجیں اسے ساحل پر ڈال دیں گی اور ایک شخص اسے اٹھالے گا جو میرا بھی دشمن ھے اور موسیٰ کا بھی دشمن ھے پھر ھم نے تمھیں تمھاری ماں کی طرف پلٹا دیا کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی ھوجائیں اور رنجیدہ نہ ھو“۔
ان آیات سے معلوم ھوتا ھے کہ جب حضرت موسیٰ کی ولادت ھوئی تو ان کی ماں پریشان ھوئیں اچانک ان کے ذہن میں خیال آیا کہ خدا پر توکل کرتے ھوئے اسے دودھ دو اور جب بھی تم نے خطر ہ محسوس کیا اسے لکڑی کے صندوق میں بند کرکے دریا میں چھوڑدو اسی طرح ان کے ذہن میں آیا کہ ان کا بچہّ دوبارہ ان کی طرف لوٹ آئے گااور اس مسئلے میں پریشان نہ ھو یہ وہ فکر تھی جومادرموسیٰ کے ذہن میں آئی اس طرح کی نجات دھندہ اور خوف وھراس دور کرنے والی افکار کو الھام رحمانی اور عنایت ربّانی کہتے ھیں جن سے خدا کے صالح بندوں کو ضرورت کے وقت نجات ملتی ھے البتہ قرآن نے وحی کے اس طرح کے معانی کو وسوسہٴ شیطانی کے لئے بھی استعمال کیا ھے مثلاًارشاد ھوا۔۔و َإِنَّ الشَّیَاطِینَ لَیُوحُونَ إِلیٰ اٴَوْلِیَائِہِمْ لِیُجَادِلُوکُمْ ۔۔۔([5])
”یعنی ،شیاطین اپنے دوستوں کی طرف ایسی باتوں کو الھام وسوسہ ڈالتے ھیں کہ وہ تم لوگوں سے جھگڑیں“۔
۴۔وحی رسالی: یہ وہ قسم ھے جو نبوّت کو مشخّص کرتی ھے اور اس طرح کی وحی کا ذکر قرآن میں ستّر مرتبہ آیا ھے مثلاًارشاد ھوا:
وَکَذَلِکَ اٴَوْحَیْنَا إِلَیْکَ قُرْآنًا عَرَبِیًّا لِتُنْذِرَ اٴُمَّ الْقُرَی وَمَنْ حَوْلَہَا۔۔۔([6] )
”یعنی اور اسی طرح ھم نے آپ کی طرف قرآن کی وحی کی تاکہ آپ مکہ والوں اور اس کے اطراف والوں کو ڈرائےں“۔
انبیاء ایسے انسان کامل ھوتے ھیں جو وحی دریافت کر نے کی کامل آمادگی رکھتے ھیں امام حسن عسکری (ع) اس بارہ میں فرماتے ھیں:”خدا نے قلوب انبیاء کو وحی کے قبول کرنے لئے بہترین پایا تو انھیں نبوّت کے لئے منتخب کیا“۔([7])
پیغمبر اسلام (ص)ارشاد فرماتے ھیں:”خدا نے کوئی ایسا پیغمبر نھیں بھیجا مگر اسے جس نے اپنی عقل کو کمال تک پہنچایا ھوا تھا اور اس کی ذکاوت پوری امّت سے برتر تھی“۔([8])
صدرا لدّین کہتے ھیں:”قبل اس کے کہ کسی نبی کو نبوّت ملے اس کے باطن نے حقیقتِ نبوّت کو سمجھ لیا تھا“۔([9])
وحی کا ظھور الھام کی مانند باطن کے خاص موارد میں پاک اوصاف ھونے پر استعمال ھوتا ھے اس فرق کے ساتھ کہ منشا ٴالھام اس شخص سے پوشیدہ رہتا ھے جس کی طرف وحی ھوتی ھے لیکن وحی کی مرضی اسے معلوم ھوتی ھے اسی لئے انبیاء پیام آسمانی کو حاصل کرتے وقت حیرت وپریشانی میں گرفتار نھیں ھوتے ھیں کیونکہ انھیں وحی کے سبب علّت اور کیفیت سے پوری آشنائی ھوتی ھے۔
زرارہ امام جعفر صادق (ع) سے سوال کرتے ھیں کہ:”کس طرح پیغمبر اکرم (ص) مطمئن ھوئے کہ جو کچھ انھیں پہنچ رھا ھے وہ وحی ھے نہ کہ وسوسہٴ شیطانی توامام نے جواب دیا:جب بھی اللهتعالی اپنے بندے کو رسالت کے لئے چنتا ھے اْسے اطمینان قلب وسکون عطا کرتا ھے اس طرح سے کہ جو کچھ اْسے اللهکی جانب سے پہنچتا ھے وہ ایسا ھے گویا وہ اسے آنکھوں سے دیکھ رھا ھے“۔([10])
اور خداپیغمبر کے انتخاب میں ھر طرح کے تعّجب اور بیجا توھم کو دور کرنے کے بارے میں ارشاد فرماتا ھے:”ھم نے آپ کی طرف اسی طرح وحی نازل کی ھے جس طرح نوح (ع)اور ان کے بعد کے انبیاء کی طرف وحی کی تھی اور ابراھیم (ع)،اسماعیل (ع)، اسحاق(ع)، یعقوب(ع)، اسباط(ع)، عیسی(ع)، ایّوب(ع)، یونس (ع)، ھارون(ع)،سلیمان (ع) کی طرف وحی کی ھے اور داوٴد (ع)کو زبور عطا کی ھے۔کچھ رسول ایسے ھیں جن کے قصےّ ھم آپ سے بیان کر چکے ھیں اور کچھ رسول ایسے ھیں جن کا تذکرہ ھم نے نھیں کیا ھے۔ اور اللهنے موسیٰ سے باقاعدہ گفتگو کی ھے۔یہ سارے رسول بشارت دینے والے اور ڈرانے والے اس لئے بھیجے گئے تا کہ رسول کے آنے کے بعد انسانوں کی حجت خداپر قائم نہ ھونے پائے اور خدا سب پر غالب اور صاحبِ حکمت ھے۔(یہ مانیں یانہ مانیں)لیکن خدا نے جو کچھ آپ پر نازل کیا ھے وہ خود اس کی گواھی ھے کہ اس نے اپنے علم سے نازل کیا ھے اور ملائکہ بھی گواھی دیتے ھیں اور خداخودبھی شھادت کے لیے کافی ھے۔بیشک جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور راہ خدا سے منع کردیا وہ گمراھی میں بہت دور تک چلے گئے ھیں“۔([11])
لہٰذا اس مسئلے میں کوئی تعجب کی بات نھیں ھے کی انسانوں میں سے بعض افراد وحی کے لئے منتخب ھوں کیونکہ وحی کا سلسلہ ایسا ھے جس سے بشر آشنا ھے کیونکہ یہ سلسلہ ابتدائے بشریت سے چلا آرھا ھے۔
قرآن کے مطابق وحی رسالی تین قسم کی ھے جیسا کہ ارشاد ھوا:
وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ اٴَنْ یُکَلِّمَہُ اللهُ إِلاَّ وَحْیًا اٴَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ اٴَوْ یُرْسِلَ رَسُولاً فَیُوحِیَ بِإِذْنِہِ مَا یَشَاءُ إِنَّہُ عَلِیٌّ حَکِیمٌ ز وَکَذَلِکَ اٴَوْحَیْنَا إِلَیْکَ رُوحًا مِنْ اٴَمْرِنَا۔۔۔([12])
”یعنی کسی سے اللهتعالی نے کلام نھیں کیا مگر یا وحی کے ذریعے یا حجاب کے ذریعے یا بھیجے ھوئے فرشتے کے ذریعے جس ذریعے سے بھی وہ جو چاہتا ھے وحی کرتا ھے بیشک وھی بلند مرتبہ والا دانا ھے۔اسی طرح سے اے رسول ھم نے اپنی طرف سے آپ کی طرف روح الامیں کے ذریعے وحی کی“۔
۱۔وحی مستقیم:یعنی قلب پیغمبر (ص) پر مستقیم اور بلا واسطہ وحی کا نازل کرنا جیسا کہ اس سلسلے میں خودپیغمبر اکرم (ص)کا ارشاد ھے:”ان روح القدس ینفث فی روعی“۔([13])
یعنی روح القدس نے میرے اندر پھونکا(اس سے معلوم ھوتا ھے کہ روح القدس جبرئیل کے علاوہ کوئی اور ھے)
۲۔آواز کا ایجاد کرنا:پیغمبر (ص)کی طرف اس طرح سے آواز کے ساتھ وحی کاپہنچناکہ ان کے علاوہ کسی اور کا نہ سننا اس طرح سے آواز کا سننااور صاحب آواز کا دکھائی نہ دینا ایسا ھے کہ گویا کوئی پردے کے پیچھے سے بولے اس لئے آیت <اٴومن وراء حجاب>ذکر ھوا،حضرت موسیٰ کی طرف کوہ طور میں جو وحی ھوئی شب معراج پیغمبر کو بھی اسی طرح کی وحی ھوئی۔
۳۔وحی کا فرشتہ کے ذریعہ سے بھیجنا:جس طرح جبرئیل امین پیغامات الٰھی کو پیغمبر اکرم (ص) کے پاس لایا کرتے تھے جیسا کہ قرآن میں ارشاد ھوا: نَزَلَ بِہِ الرُّوحُ الْاٴَمِینُ ز عَلٰی قَلْبِکَ۔۔۔([14])
”یعنی روح الامین نے اس قرآن کو آپ کے قلب پر نازل کیا“۔
پیغمبر اکرم (ص) کی طرف جب مستقیم بلا واسطہ وحی نازل ھوتی تھی تو آپ کو سنگینی کا احساس ھوتا تھا آنحضرت(ص) کا جسم گرم ھوجاتا تھا اور آپ کی پیشانی پرپسینہ جاری ھوجاتا تھا اگر آپ(ص) اونٹ یاگھوڑے پرسوار ھوتے تواس حیوان کی کمر جھکنے لگتی تھی اور زمین سے نزدیک ھوجاتی تھی،حضرت علی (ع) ارشاد فرماتے ھیں:”جب قلب پیغمبر (ص)پر سورہ مائدہ کا نزول ھوا تو اس وقت آپ”شھباء“نامی سواری پر تھے کہ حیوان کی کمر خم ھوگئی اور نزدیک تھا کہ زمین سے لگ جائے ایسے وقت میں پیغمبر (ص) کی حالت متغیر ھونے لگی اور آپ نے اپنے ھاتھ کو قریب صحابی کے کندھے پر رکھ دیا“۔([15])
عبادہ بن صامت کہتے ھیں”نزول وحی کے وقت پیغمبر کا ر نگ متغیر ھونے لگتا تھا اور پیغمبر کی کمر جھکنے لگتی تھی اور پیغمبر سر کو جھکا لیتے تھے یہ دیکھ کر صحابہ بھی جھک جایا کرتے تھے“۔([16])
بعض اوقات ایسا ھوتا تھا کہ نزول وحی کے وقت پیغمبر کے زانو برابر میں بیٹھے ھوئے دوسرے شخص کے زانووں پر پڑ جاتے وہ پیغمبر کے زانووٴں کی سنگینی کو تحمّل نہ کرپاتا تھا۔ھمیں نھیں معلوم کہ پیغمبر پر اس طرح کی حالت کیوں طاری ھوتی تھی شاید اس کی وجہ یہ ھو کہ ھم وحی کی حقیقت سے آشنا نھیں ھیں،مزید تفصیل کے لئے دوسری کتابوں کی طرف رجوع کیاجائے جو خاص وحی اور اس کی کیفیت کے بارے میں لکھی گئی ھیں۔([17])
[1] المفرادات فی غریب القرآن،ص۵۱۵۔
[2] سورہ مریم،آیت۱۱۔
[3] سورہ نحل،آیہ۶۸و۶۹۔
[4] سورہٴ طہ آیہ۳۷۔۴۰۔
[5] سورہ انعام،آایہ۱۲۱۔
[6]سورہ شوریٰ آیت۷۔
[7] بحار،ج۱۸،ص۲۰۵ح۳۶۔
[8] اصول کافی،ج۱،ص۱۳۔
[9] شرح اصول کافی،ج۳،ص۴۵۴۔
[10] بحار،ج۱۸،ص۲۶۲،ح۱۶۔
[11] سورہ نساء آیہ۱۶۳سے۱۶۷۔
[12] سورہ شوری آیہ ۵۱۔۵۲۔
[13] الاتقان ج۱،ص۴۴۔
[14] سورہ شعراء آیت۱۹۴۔۱۹۳۔
[15] تفسیر عیاشی،ج۱ص۳۸۸۔
[16] طبقات ابن سعد،ج۱،ص۱۳۱۔
[17]التمھید فی علوم القرآن ج۱ص۶۶۔