نزول وحی

قرآن مجموعہ ھے ان آیات اور سوروں کا جو ہجرت سے پھلے اور ہجرت کے بعد مختلف مناسبتوں کے تحت پیغمبر اسلام  (ص) پر نازل ھوئے،قرآن کا تدریجی نزول آیہ آیہ اور سورہ سورہ کی صورت میں تھا جس کا سلسلہ پیغمبر اکرم  (ص) کی آخری عمر تک جاری رھا،حیات پیغمبر(ص)میں بعض اوقات پیشین گوئیاں کرنے یامشکلات کو دور کرنے یاسوالات کے جوابات دینے کے لئے یابعض آیات نازل ھوتیں یا کوئی پورہ سورہ نازل ھوجایا کرتا تھا نزول قرآن کی یہ روش دوسری کتب آسمانی سے بالکل جدا تھی کیونکہ صحف ابراھیم (ع) اور الواح موسیٰ  (ع)یکجا نازل ھوئے ھیں یھی چیز سبب بنی کہ مشرکوں نے پیغمبر اسلام  (ص)میںعیب جوئی شروع کی جیسا کہ اس آیت میں ارشاد ھوا:< وَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا لَوْلاَنُزِّلَ عَلَیْہِ الْقُرْآنُ جُمْلَةً وَاحِدَةً۔۔۔>([1])

 ”یعنی کافروں نے کھا کیوں قرآن یکجا اس پر نازل نھیں ھوجاتا؟“۔

تو ان کے جواب میں ارشاد ھوا:<کَذٰلِکَ لِنُثَبِّتَ بِہِ فُؤَادَکَ وَرَتَّلْنَاہُ تَرْتِیلًا> ([2] )

یعنی یہ ا س لئے ھے کہ اے پیغمبر ھم نے آپ کے قلب کو مستحکم کردیں اس لئے ھم نے ا س کو تدریجی طور پر نازل کیا دوسری جگہ ارشادھوا:< وَقُرْآنًا فَرَقْنَاہُ لِتَقْرَاٴَہُ عَلَی النَّاسِ  عَلَی ُکْثٍ وَنَزَّلْنَاہُ تَنزِیلًا>([3])

یعنی قرآن کی آیات کو ھم نے ایک دوسرے سے جدا کیا تا کہ تم اسے بلا جھجھک پڑھواور اسے ھم نے آپ پر تدریجی طور پر نازل کیا،

اس طرح سے کے قرآن کے مطالب کا استخراج کیا جاسکے لہٰذا قرآن کے تدریجی طور پر نازل ھونے کی مصلحت ھی یہ ھے کہ پیغمبر اکرم  (ص) اور مسلمان اسے احساس کریں جو ھمیشہ عنایات پروردگار  کے سائے میں ھیں اور ھمیشہ ان کے اور خدا کے درمیان رابطہ مستحکم ھے چنانچہ اکثر اوقات نازل ھونے والی آیات پیغمبر اسلام  (ص) کی تسکین کا موجب ھوتی تھیں۔

نزول قرآن کا آغاز

قرآن کی صریح نص کے مطابق نزول قرآن کا آغاز ماہ رمضان کی شب قدر میں ھوا جیسا کہ ارشاد قرآن ھے:< شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِی اٴُنزِلَ فِیہِ الْقُرْآنُ۔۔۔>([4])

”یعنی ماہ رمضان وہ مھینہ ھے جس میں قرآن کو نازل کیا گیا“۔

دوسری جگہ ارشاد ھوا:<إِنَّا اٴَنزَلْنَاہُ فِی لَیْلَةِ الْقَدْرِ>([5])

”یعنی ھم نے قرآن کو شب قدر میں نازل کیا“۔

 علماء امامیہ کے نزدیک ماہ رمضان کی ۱۹و ۲۱و۲۳ کے درمیان شب قدر کا امکان ھے ۔

شیخ صدوق حسّان بن مھران سے اور وہ امام جعفر صادق (ع)سے روایت نقل کرتے ھیں کہ جب حضرت سے کسی نے شب قدر کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا:”انیس کی شب فرضی ھے اور اکیس کی شب تعیین ھے اور۲۳ کی شب اختتام امور کی شب ھے۔([6])

پھر شیخ صدوق لکھتے ھیں کہ ھمارے بزرگوں کا اس بات میں اتفاق ھے کہ شب قدر ماہ رمضان کی شب ۲۳ھے۔([7])

 آخری تین سال

 وحی رسالی کا آغاز(یعنی بعثت کا آغاز)۲۷رجب ہجرت سے تیرہ سال پھلے (۶۰۹ میلادی )کو ھوا،لیکن نزول قرآن کا آغاز آسمانی کتاب کے حولے سے تین سال تاٴخیر سے ھوا،ان تین سالوں کو”فترت“کہتے ھیں پیغمبر اکرم  (ص)ان تین سال کی مدّت میں پوشیدہ طورپر تبلیغ کیاکرتے تھے یھاں تک کہ جب یہ حکم <فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ۔۔۔> ([8])

”یعنی جس کاتمھیںحکم دیا گیا ھے اسے آشکار کردو“۔

نازل ھوا تو آنحضرت(ص) نے اعلانیہ تبلیغ کرنی شروع کردی،ابو عبداللهزنجانی لکھتے ھیں اس آیت <اقْرَاٴْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِی خَلَقَ>([9])

”یعنی پڑ ھو اپنے رب کے نام جس نے تمھیں خلق کیا“۔

نازل ھوئی تو اس کے بعد تین سال تک قرآن نازل نھیں ھوا اس مدّت کو”فترت وحی“نام رکھتے ھیں پھر قرآن تدریجی طور پر نازل ھو نا شروع ھوا۔([10])

مدت نزول اور اس کے بارے میں تین سوال اور ان کے جواب

قرآن کے تدریجی طور پر نازل ھونے کی مدت ۲۰سال ھے جس کا سلسلہ بعثت پیغمبر  (ص)کے تین سال کے بعد شروع ھوا اور پیغمبر(ص) کی حیات کے آخری سال تک یہ سلسلہ جاری رھا اب یھاں پر تین سوال پیش آتے ھیں۔

۱۔کس طرح نزول قرآن یا آغاز قرآن شب قدر میں ھوا جبکہ بعثت پیغمبر کا آغاز ۲۷/رجب کو سورہٴ علق کی ابتدائی پانچ آیات سے ھوچکاتھا؟

۲۔اگر پیغمبر (ص)پر سورہٴ علق کی ابتدائی پانچ آیات نازل ھوئیں تو پھر سورہٴ حمد کو فاتحة الکتاب کیوں کھا جاتاھے؟

۳۔کس طرح قرآن شب قدر میں نازل ھوا ھے جبکہ قرآن بیس سال کی مدّت میں تدریجی طور پر مختلف مناسبتوں کے تحت نازل ھوا؟

ان سوالوں کے جوابات اس طرح سے ھیں،پھلے سوال کا جواب یہ ھے کہ نزول قرآن کا آغاز بعثت کے تیسرے سال سے ھوا اور سورہٴ علق کی ابتدئی پانچ آیات جو بعثت کے وقت نازل ھوئیں وہ عنوان قرآن نھیں رکھتیں تھیں بلکہ جب بطور کامل سورہ اترچکا تب قرآن کا عنوان منطبق ھوا،نزول قرآن کا آغاز اس وقت سے شروع ھوا جب یہ آیت< فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ۔۔۔>نازل ھوئی اور  پیغمبر  (ص)کو اعلانیہ تبلیغ کرنے کا حکم ھوا اس وقت کے بعدسے مسلسل سورے نازل ھوتے رہتے تھے ۔

دوسرے سوال کا جواب یہ ھے کہ:اگر پیغمبر  (ص)کی حیات ھی میں سورہٴ حمد پر فاتحة الکتاب کا نام استعمال ھوتاتھا تو اسکی دلیل یہ ھے کہ یہ سب سے پھلا سورہ ھے جو بطور کامل پیغمبر(ص) پر نازل ھوااس کے علاوہ بعضی دیگر روایات میں آیا ھے کی اسی بعثت کے پھلے دن ھی جبرئیل (ع)نے نماز ووضوکے مسائل کی آئین اسلام کے مطابق پیغمبرکو تعلیم دیدی تھی جس سے پتہ چلتا ھے کہ سورہٴ حمد بھی اس وقت تک بطورکامل نازل ھوگیا ھوگا کیونکہ روایت میںھے۔

”لا صلواة الابفاتحة الکتاب“۔([11])

”یعنی کوئی بھی نماز بغیر سورہٴ حمد کے قبول نھیں ھے“۔

تیسرے سوال کا جواب یہ ھے کہ قرآن کے شب قدر میں نازل ھونے اور پھر پیغمبر(ص) کی ۲۰سالہ زندگی میں تدریجی طور پر نازل ھونے کے بارے میں جو مختلف نظریات پائے جاتے ھیں۔

پھلا نظریہ:نزول قرآن کا آغاز شب قدرمیں ھوا(نہ کہ پورا قرآن نازل ھوا) جیسا کہ یہ آیت< شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِی اٴُنزِلَ فِیہِ الْقُرْآنُ۔۔۔>اس مطلب پر دلالت کررھی ھے۔

 اکثرمحققین نے اس نظریہ کو پسند کیا ھے کیونکہ علماء معاصرین صرف آیات کے نزول سے پورے قرآن کے نزول کو نھیں سمجھتے تھے اس کے علاوہ قرآن میں اور بھی کچھ موارد ھیں جن سے یہ بات سمجھ میں آتی ھے کہ قرآن یکجا ایک رات میں نازل نھیں ھو سکتا ھے مثلاً قرآن میں گذشتہ حالات کی خبر دیتے ھوئے پھلی  شب  قدر کی نسبت آیندہ شبوں کے لحاظ سے علیحدہ حساب ھو گی ۔

مثال کے طور پر< وَلَقَدْ نَصَرَکُمْ اللهُ بِبَدْرٍ وَاٴَنْتُمْ اٴَذِلَّةٌ۔۔۔>([12])

 ”خداوند عالم نے جنگ بدر میں تم لوگوں کی مدد کی اور تم لوگوں کو تمھارے دشمنوں پر کامیاب کیا جب کہ تم لوگ ان کے مقابلے میں ناتوان تھے“۔

اس طرح کی آیات قرآن میں بہت ھیں اور اگر نزول قرآن پھلی شب قدر میں ھوا ھو تو ضروری ھے کہ بطور کامل اترا ھو وگر نہ ظاھری حقیقت سے بات دور چلی جاے گی مذکورہ استدلال کے علاوہ قرآن میں ناسخ ومنسوخ ،عام وخاص،مبھم ومبیّن بہت زیادہ ھیں جبکہ ناسخ ھونے کا مطلب یہ ھے کہ ناسخ ومنسوخ آیات میں تاٴخیر زمانی پائی جاتی ھے اسی طرح مبھم آیات اور دوسری آیات کے درمیان فاصلہٴ زمانی پایا جاتاھے لہٰذا یہ بات ھر گز معقول نھیں ھے کہ موجودہ قرآن یکجا نازل ھوا ھو ۔

       دوسرا نظریہ:کچھ لوگوں کا یہ نظریہ ھے کہ ھر سال شب قدر اْتنا قرآن جو اس سال کی ضرورت کی مقدار تک یکجا اور پھر پورے سال بطور تدریجی واقعات اور مناسبات کے لحاظ سے نازل ھوتارہتا تھا،اس نظریہ کو مان لینے کی صورت میں یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ ماہ رمضان اور شب قدر سے مراد ایک ماہ رمضان اور ایک شب قدر نھیں ھے بلکہ تمام ماہ رمضان کی تمام راتیں اور شب قدر کی تمام راتیں مراد ھیں۔([13])

تیسرا نظریہ:کچھ لوگوں کا نظریہ ھے کہ قرآن دو طریقوں سے نازل ھوا ھے ایک دفعی نزول یعنی یکجا نازل ھونا اور دوسرا تدریجی  نزول،با الفاظ دیگر شب قدر پورا قرآن پیغمبر   (ص)پر نازل ھوا اور پھر پیغمبر(ص) کی طول حیات میں تدریجی طور پر نازل ھوتا رھا اس نظریہ پر اھل سنت اور شیعہ دونوں کی طرف سے نقل کی جانے والی روایات موجود ھیں فرق صرف اتنا ھے کی اھل سنّت کی روایات کے مطابق قرآن یکجا عرش سے پھلے آسمان پر نازل ھوا اور ”بیت العزة“نامی جگہ پر نازل ھوا لیکن شیعہ روایات کے مطابق قرآن یکجا عرش سے چوتھے آسمان پر”بیت المعمور“نامی مقام پر نازل ھوا۔

پھر بزرگ علماء نے قرآن کے مختلف طریقوں سے نازل ھونے کی توجیہ مندرجہ ذیل طریقوں سے بیان کی ھے۔

۱۔شیخ صدوق تحریر کرتے ھیں کہ قرآن کے یکجاپیغمبر  (ص) پر نازل ھونے سے مراد یہ ھے کہ آپ کو کلّیات قرآن کی آگاھی دیدی گئی تھی(نہ یہ کہ خود قرآن یکجا نازل ھوا ھو)

 ۲۔ابو عبدالله زنجانی کہتے ھیں:”روح قرآن وھی قرآن کے عالی اھداف ھیں جو شب قدر قلب پیغمبر (ص)پر نازل ھوئے پھر زبان پیغمبر سے ظاھر ھوئے “۔

۳۔علامہ طباطبائی لکھتے ھیں:”قرآن اپنے باطنی وجود میںھر طرح کے تجزیہ و تفصیل سے خالی ھے جس کا نہ جز ھے نہ فصل ھے اور نہ آیت نہ سورہ ھے بلکہ ایک مستحکم حقیقت ھے جو اپنا عالی ترین مقام رکھتی ھے اور ھرکس وناقص کی دسترس سے بھی دور ھے پس قرآن کے دو وجود ھیں ایک وجود ظاھری:جو کہ الفاظ اور عبارات کی صورت میں ھے دوسرا وجود باطنی جو اپنی اصلی جگہ پر ھے لہٰذا قرآن شب قدر میں اپنے باطنی واصلی وجود کے ساتھ یکجا قلب پیغمبر(ص) پر نازل ھوا پھر تدریجاً اپنے ظاھری وجود کے ساتھ مختلف منا سبتوں اور مختلف موقع ومحل پر حیات پیغمبر(ص) میں نازل ھوا۔([14])

البتہ یہ تمام نظریات صحیح اور قابل احترام ھیں مگر ظاھر قرآن کے ساتھ جو نظریہ زیادہ مناسبت رکھتا ھے وہ سب سے پھلا نظریہ ھے جو کہ شیخ مفید(رہ) کا نظریہ ھے کہ نزول قرآن کا آغاز ماہ رمضان کی شب قدر میں ھوا۔                         



[1] سورہ فرقان آیہ ۳۲۔

[2] سورہ فرقان آیہ۳۲۔

[3] سورہ اسراء آیہ۱۰۶۔

[4] سورہ بقرہ آیہ۱۸۵۔

[5]  سورہ قدر آیہ۱۔

[6] وسائل الشیعہ ج۷ باب۳۲ص۱۔۲۔

[7] خصال صدوق،ج۲ص۱۰۲،التمھید ج۱،ص۱۰۸۔

[8]  سورہ حجر آیہ۹۴۔

[9] سورہ علق آیہ۱۔

[10] تاریخ القرآن ص۹

[11] عوالی اللئالی ج۱ص۱۹۶۔

[12]  سورہ آل عمران،آیہ۱۲۳۔

[13] تفسیر کبیر رازی ،ج۵،ص۸۵،تفسیر درّ المنثور،ج۱،ص۲۷۶،الاتقان ،ج۱،ص۴۰۔

[14] المیزان،ج۲،ص۱۵۔