اسباب نزول

جیسا کہ آپ لوگوں کے علم میں ھے کہ قرآن پیغمبر اکرم  (ص)کی بعثت کی پوری زندگی میں مختلف مناسبتوں سے مختلف مقامات پر تدریجی طور پر نازل ھوا کھیں کسی عظیم حادثہ کی خبر دی گئی تو کھیں پیغمبر(ص) کے لوگوں کی طرف سے پوچھے جانے والے سوالات کے جوابات دیئے گئے ان تمام حالات کو یا اسباب نزول سے ”یا شان نزول“ سے تعبیر کیا گیا ھے اور یہ بات تو واضح ھے کہ نازل ھونے والی آیات یاخود رونما ھونے والے حادثہ کو بیان کرتی ھیں یا اس کی مناسبت کی طرف نظر رکھتی ھیں لہٰذا اگرآیت کے لفظ یا معنی کے درمیان کوئی اشکال یا ابھام محسوس ھو تو اس رونما ھونے والے حادثے اور اس سورہ یاآیات کے نازل ھونے کے زمانے اور حالات کے پیش نظر اس آیت کے معنی واضح ھوجاتے ھیں لہٰذا ھر آیت کی پوری تفسیر کو جاننے کے لئے اس کے شان نزول اور سبب نزول کی طرف رجوع کرنا ھوگا۔

 مثال کے طور پر آیت میں ارشاد ھوا:إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اٴَوْ اعْتَمَرَ فَلاَجُنَاحَ عَلَیْہِ اٴَنْ یَطَّوَّفَ بِہِمَا ۔۔۔([1])

”یعنی بے شک صفا ومروہ شعائر خدا میں سے ھیں (یعنی ان سے اس کی یاد دھانی ھوتی ھے)پس جو بھی حج بیت اللہ انجام دے یاعمرہ کرے اسپر کوئی گناہ نھیں ھے کہ وہ ان دونوں کے درمیان سعی بجا لائے۔۔۔“۔

اب اس آیت میں یہ اعتراض ھوتا ھے کہ کوہ صفاومروہ کے درمیان سعی کرناجب ارکان حج وعمرہ میں سے ھے توکیوں اس کے لئے < فَلاَجُنَاحَ>کی تعبیر لائی گئی ھے؟

 کیونکہ آیت کے ظاھری معنی سے یہ پتہ چلتا ھے کہ ان دونوں پھاڑوں کے درمیان سعی کرنے”دوڑنے وچلنے“میں کوئی گناہ نھیں ھے اس عبارت سے جواز کا پتہ چل رھا ھے نہ کہ وجوب کاجب کہ سعی کرنا واجبات میں سے ھے لہٰذا اس آیت کے شان نزول کی طرف رجوع کرنے سے یہ مطلب روشن ھوجاتا ھے کہ اس طرح کی تعبیر کہ گناہ کے گمان کو دور کرنے لئے استعمال کیا جاتا ھے جس کا تفصیلی قضیہ اس طرح سے ھے کہ صلح حدیبیہ کے بعد ہجرت کے چھٹے سال یہ مقر ر ھواکہ پیغمبر اسلام (ص) اور باقی صحابہ آئندہ سال اعمال عمرہ انجام دینے لئے مکّہ تشریف لائیںگے اور یہ بات صلح نامہ میں لکھ دی گئی تھی کہ ان تین دنوں تک مشرکین خانہ کعبہ اور اس کے اطراف سے سارے بت ہٹا لیںگے تاکہ مسلمان آزادی سے طواف اورسعی وغیرہ انجام دے سکیں لہٰذا تین دن کے گزرنے کے بعد بت رکھ دیئے گئے بعض مسلمان اس دوران کچھ مشکلات کے باعث سعی صفا ومروہ انجام نھیں دے سکے تھے لہٰذا مشرکین کی طرف سے بتوں کے لوٹا دیئے جانے سے وہ لوگ یہ سمجھے کہ کھیں ان بتوں کی موجودگی میں صفا ومروہ کے درمیان سعی کا عمل کھیں گناہ تو نھیں ھے لہٰذا مذکورہ آیت نازل ھوئی کہ مسلمان اس سعی کرنے سے پر ھیز نہ کریں کیونکہ یہ سعی بنیادی طور پر شعائر الٰھی میں سے ھے اور بتوں کا وجود ایک عارضی امر ھے جو تمھارے سعی والے عمل کو کوئی نقصان نھیں پہنچا تا ھے۔([2])

لہٰذا آپ نے ملاحظہ کیا کہ آیت کے شان نزول کو جاننے کے بعد آیت کا مفھوم واضح وروشن ھوجاتا ھے با الفاظ دیگر اس آیت میں مسئلہ جواز یا وجوب سعی کوپیش نھیں کیا گیا ھے بلکہ اس آیت میں صرف اس وھم کو دور کیا گیاھے جو بتوں کی موجودگی میں سعی انجام دینے کے بارے میں بعض اصحاب کو پیش آیا تھا کہ کھیں ان بتوں کی موجودگی میں سعی کرنا گناہ تو نھیں ؟ 

اسباب نزول اور شان نزول کا فرق

ان دونوں عبارتوں کے درمیان کیا فرق ھے؟ اکثر مفسرین تو ان دونوں تعبیرات کے درمیان کسی فر ق کے قائل نھیں ھوئے ھیں ھر وہ مناسبت جس کے تحت آیت یا آیات نازل ھوئیں کبھی انھیں سبب نزول سے تعبیر کیا گیا اور کبھی شان نزول اعم ھے اسباب نزول سے جب بھی کوئی واقعہ یا  مناسبت کسی شخص کے بارے میں ھوچاھے وہ واقعہ گذشتہ زمانے میں پیش آیاھو یاحال ومستقبل میں پیش آنے والا ھو یا کوئی حکم ھوتو ان تمام موارد کو آیات کا شاٴن نزول کہتے ھیں مثلاً کہتے ھیں فلاں آیت فلاں نبی یاملائکہ کی مدحت کے بارے میں نازل ھوئی ھے لیکن اسباب نزول کسی حادثہ یاحالات کے پے درپے واقع ھونے کے سلسلے میں نازل ھونے والی آیت یاآیات کو کہتے ھیں با الفاظ دیگر وہ حالات اور واقعات جو ان آیات کے نازل ھونے کا سبب نھیں ھیں۔

تنزیل اور تاٴویل کا فرق

گذشتہ لوگوں کی اصطلاح میں ”تنزیل“نزول  کے موردمیں کھا جاتا تھا اب یہ مورد چاھے کوئی خاص واقعہ کا ھو جو آیت کے نزول کا سبب بنا ھومگر’ ’تاٴویل“ ایک عام مفھوم ھے جو ایک آیت یا چند آیات سے نکالاجاتاھے اور اس کو مناسب حالات پرمنطبق کیاجاتاھے بعض دیگر تعبیرات میں دو اصطلاحیں”ظھروبطن“کی کھی جاتی ھیں جس میں ”ظھر“ سے مراد وھی تنزیل ھے ااور”بطن“ سے مراد تاٴویل ھے کیونکہ آیت کا ظاھری مفھوم نزول کے مورد کو سمجھاجاتا ھے اور آیت کاباطنی مفھوم وسیع تر ھوتا ھے،فُضیل بن یسار اس مشھور ومعروف حدیث کو پیغمبر  (ص)سے نقل کرتے ھیں کہ آپ نے فرمایا:”مافی القرآن آیة الا ولھاظھر وبطن“”یعنی قرآن میں کوئی ایسی آیت نھیں کہ اس کاایک ظاھر اور ایک باطن نہ ھو“۔پھر جب اس حدیث کے بارے میں امام جعفر صادق (ع) سے سوال ھوا تو حضرت نے جواب دیا:”آیت کے ظاھرسے مراد آیت کا نزول ھے اور باطن سے مراد اس کی تاٴویلات ھیں جس میں سے کچھ پھلے واقع ھو چکی ھیںاور کچھ ابھی پیش نھیں آئی ھیں قرآن ھمیشہ زندہ وجاوید اور قابل استفادہ ھے جس طرح چاند وسورج کا چکر ھے“۔([3])

دوسری حدیث میںارشادفرمایا:”ظاھرقرآن سے مراد وہ حالات،واقعا ت اور کردار ھیں جن کے بارے میں آیات نازل ھوئی ھیں اور باطن قرآن سے مراد وہ حالات اور واقعات ھیں جو گذشتہ حالات وواقعات یا کردار کی طرح تاقیامت پیش آنے والے ھیں“۔([4])

فقھاء نے شان نزول اور تنزیل وتاٴویل آیات کے بارے میں ایک قاعدہ بنایا ھے جس کے تحت آیت کے مفھوم یا اس کے عام وخاص کو معلوم کیا جاسکتاھے یعنی اگر آیت کامعنی عام ھے تو اگر چہ کوئی خاص سبب اس کے نزول کا باعث ھوا ھو تب بھی اس کا استعمال محدود ومخصوص افراد یاموارد کے ساتھ منحصر نھیں ھوگا،ایک مجتھد میں یہ خصوصیات ھونی چاہئے ھیں کہ وہ موارد نزول کو چھوڑ تے ھوئے لفظ کے عام معانی جوانب سے استفادہ کر سکے البتہ متن آیت کو سمجھنے کے لئے اسباب نزول کا سمجھنا بھی مفید ھے مگر صرف یھی کافی نھیں ھے کیونکہ احکام الٰھی عمومی ھیں جو تمام حالات اورزمان ومکان لئے ھیں لہٰذا لفظ کی عمومیت زیادہ معتبر ھے لفظ کی خصوصیت کی نسبت جیسا کہ فقھی قاعدہ ھے۔”العبرة بعوم اللفظ لابخصوص الموارد“۔

اسباب نزول جاننے کا طریقہ

اگر چہ آیات کے اسباب نزول کا جاننا تھوڑا مشکل ھے کیو نکہ گذشتہ لو گوں نے اس سلسلے میں کوئی خاص دقت وکوشش نھیں کی ھے ممکن ھے اس کی ایک علت تحریر  کے لوازمات اور وسائل کا مسئلہ ھو جس کی وجہ سے وہ لوگ اپنی معلومات کی تحریر ی طور پر نہ لا سکے ھوں یا بعد میں اس سلسلے میں ایسی روایات نقل ھوئی ھوں جو سند کے لحاظ سے ضعیف ھوں یا قابل اعتماد نہ ھوں یا ان میں دوسروں کے اغراض ومقاصد پو شیدہ ھوں خصوصاً بنو امیہ کے دور میں صاحبان حکومت بے شمار آیات کی شان نزول کو اپنی مرضی سے تفسیر وتاٴویل کرتے تھے،امام احمد بن حنبل سے اس سلسلے میں نقل ھے کہ تین قسموں کی روایات کی کوئی اصل وبنیاد نھیں ھے۔

 ۱۔وہ روایات جو صدر اسلام کی جنگوں کے بارے میں نقل ھوئی ھیں۔

۲۔وہ روایات جو آخری زمانے کے فتنوں کے باے میں نقل ھوئی ھیں۔

۳۔وہ روایات جو قرآن کی تفسیر وتاٴویل کے سلسلے میں نقل ھوئی ھیں۔

امام بدرالدین زرکشی بعض محققین سے نقل کرتے ھیں”اس سلسلے میں اکثر روایات کے قابل اعتماد نہ ھونے کامطلب ھرگز یہ نھیں ھے کہ تمام روایات قابل اعتماد نھیں ھیں“([5])

کیونکہ اسباب نزول روایات کے ذریعے سے پہچانے جاتے ھیں اور افسوس کے ساتھ کئی گذشتہ حالات وحوادث ایسے ھیں جو تحریر نھیں ھوئے ھیں اورجو نقل بھی ھوئے ھیں ان کے منابع زیادہ معتبر وقابل اعتماد نھیں ھیں۔

واحدی اپنی کتاب اسباب النزول میں لکھتے ھیں”جائز نھیں ھے کہ اسباب نزولِ آیات کے سلسلے میں کچھ کھا جائے مگر صحیح وقابل اعتماد روایات کے پیش نظر اور یہ کہ وہ روایات خود ایسے افراد سے نقل ھو ئی ھوںجو خود ان حوادث کے وقت موجود ھوں اور انھوں نے اس کامشاھدہ کیا ھو نہ کہ اپنے اندازے کے ذریعے اور بے بنیاد دلائل کے ذریعے نقل کردیا ھو“۔

 پھر ابن عباس سے نقل کرتے ھیں کہ پیغمبر اسلام   (ص)نے ارشاد فرمایا: ”نقل حدیث سے پر ھیز کرومگر یہ کہ اسکے بارے میں صحیح علم وشناخت ھو کیونکہ جو بھی مجھ پریاقرآن پر جھوٹ باندھے گا اس کا ٹھکانہ جہنم ھے“۔ 

محمدبن سیرین کہتے ھیں:” میں نے عبیدہ (جوکہ تابعین کے سمجھدار افراد میں سے ھیں) سے قرآن کی آیت کی تفسیر کے بارے میں سوال کیا توانھوں نے جواب دیاوہ لوگ چلے گئے جو اسباب نزول آیات کو جانتے تھے“۔

 واحدی کہتے ھیں:”اس دورمیں جھوٹ بولنے والے بہت ھیں لہٰذا حقائق قرآن کو سمجھنے میں احتیاط سے کام لیناچاہئے“۔([6])

جلال الدین سیوطی اس سلسلے میں اپنی تمام کوشش کے باوجود۲۵۰سے زیادہ احادیث کوجمع نھیں کرسکے ھیں جن میں صحیح وغیر صحیح احادیث سب ھیں۔([7])

لیکن خوش قسمتی سے مکتب اھل بیت (ع) میں چار ہزار سے زیادہ روایاتِ صحیح اس بارے میں جمع کی جا چکی ھیں(جنھیں آقای برھان نے دس جلدی کتاب میں جمع آوری کیاھے)فی الحال جومنابع ھمارے پاس موجودھیں اسباب نزول کے سلسلے میںجو قابل اطمینان بھی ھیں وہ مندرجہ ذیل کتابیں ھیں۔۱۔جامع البیان طبری، ۲۔الدرّالمنثور سیوطی،۳۔مجمع البیان طبرسی،۴۔تبیان شیخ طوسی، ۵۔اسباب نزول واحدی، ۶۔لباب النقول سیوطی۔

البتہ ان کتب میں بھی مطالب معتبر وغیر معتبر دونوں مخلوط ھیں لہٰذاان مطالب میں دقت کی جائے اورصحیح مطالب کو غیر صحیح سے تشخیص دینے کی مندرجہ ذیل راھیں ھیں۔

(الف)روایت کی سندھو خصوصاً اس آخری فر دکانام موجود ھو جس سے وہ روایت نقل ھوئی ھے اور وہ شخص قابل اطمینان ھو یعنی یامعصوم ھو یا قابل اطمینان صحابی ھو مانند عبداللہ بن مسعود یا ابی بن کعب وابن عباس جیسے افراد جو قرآن کے سلسلے میں کافی اور وافی معلومات رکھتے ھوں اور امّت کے لئے قابل قبول ھوں یا اعلی مقام کے تابعین میں سے ھوں جیسے مجاھد وسعیدبن جبیر وسعید بن مسیّب جو اپنی طرف سے کوئی بات گڑھ کر نھیں لاتے تھے اور جھوٹ بولنے سے بھی پرھیز کیا کر تے تھے۔ 

(ب)روایت تو اتر کے ساتھ یا کثیر راویوں سے نقل ھوئی ھو یعنی روایات کے الفاظ اگرچہ مختلف ھوں مگر معنی سب کے ایک ھوں اور معنی میں اختلاف کی صورت میں ان کاجمع ھوناممکن ھوایسی صورت میں اس بات کا اطمینان حاصل ھوجاتاھے کہ مذکورہ روایت صحیح ھے۔

(ج)ضروری ھے کہ وہ روایات جو اسباب نزول کے سلسلے میںنقل ھوئی ھیں وہ ھر طرح کے اشکال وابھام کو دور کر رھی ھوں کہ یہ بات خود ان روایات کی صداقت پر دلیل ھے اگرچہ علم الحدیث کی اصطلاح اور سند کے لحاظ سے روایت صحیح نہ ھو۔



[1] سورہ بقرہ آیہ۱۵۸۔

[2] تفسیر عیاشی ،ج۱،ص۷۰۔

[3] بصائر الدّ رجات،ص۱۹۶،ح۷۔

[4] تفسیر عیاشی ،ج۱،ص۱۱،ح۴۔

[5] البرھان،ج۲،ص۱۵۶۔

[6] اسباب النزول،ص۴۔

[7] الاتقان،ج۴ل،ص۲۵۔